مغربی کنارے کے شہر طولکرم میں اسرائیلی فوج کے بلڈوزروں نے دو پناہ گزین کیمپوں میں گھر مسمار کر دیئے اور گلیاں اکھاڑ دیں جسے فوج نے فلسطینی مزاحمت کاروں کی تلاش کا نام دیا تھا۔ فوج نے عمارات کے انہدام اور وسیع جگہوں سے ملبہ صاف کرنے سے پہلے ہزاروں بے گھر باشندوں کو گھروں سے سامان نکالنے کے لیے صرف چند گھنٹے کا وقت دیا۔ اب رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ اس مسماری سے نہ صرف عمارات بلکہ بطور پناہ گزین ان کی اپنی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی جہاں ان کے آباؤ اجداد کی نسلیں آباد رہیں اور اب وہ جگہ اسرائیل ہے۔ اسرائیل کے 1948 میں قیام کے بعد سے ان زمینوں پر فلسطینی پناہ گزینوں کا دعوی کردہ "حقِ واپسی" اسرائیل-فلسطینی تنازعے کا ایک نازک ترین مسئلہ ہے۔ فوج نے کہا ہے کہ وہ اپنی کارروائی کے تازہ ترین مرحلے میں اس ہفتے طولکرم کیمپ میں مزید 104 عمارات مسمار کر دے گی اور اسے کئی کیمپوں کے خلاف سخت کریک ڈاؤن قرار دیا ہے جو اس کے مطابق فلسطینی مسلح گروپوں کے مضبوط گڑھ ہیں۔ "ہم کیمپ میں واپس آئے اور دیکھا کہ ہمارا گھر مہندم ہو چکا تھا۔ کسی نے ہمیں اطلاع نہیں دی، کسی نے کچھ نہیں بتایا،" 62 سالہ عبدالرحمٰن عجاج نے کہا جو بدھ کو اپنا سامان لے جانے کی امید کر رہے تھے۔ طولکرم کیمپ میں پیدا ہونے والے عجاج نے کہا کہ انہوں نے اسرائیلی کارروائی کے وسیع پیمانے کا اندازہ نہیں لگایا تھا۔ اس کارروائی کا آغاز شمالی مغربی کنارے کے شہر جنین پر ایک چھاپے سے ہوا جو فلسطینی مزاحمت کاروں کا ایک دیرینہ گڑھ ہے اور تیزی سے دوسرے شہروں بشمول طولکرم میں پھیل گیا۔ اس میں اقوامِ متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق کم از کم 40,000 افراد بے گھر ہوئے۔ "ہم عموماً دو یا تین دن بعد واپس آ جاتے ہیں،" ایک چھاپے کے انتباہ کے بعد کیمپ خالی کرتے ہوئے عجاج نے اے ایف پی کو بتایا۔ اب گھر کے بغیر رہ جانے والے عجاج نے اپنے والدین کی نسل کے فلسطینیوں کے جذبات کی ترجمانی کی۔ ان کا بھی یہی خیال تھا کہ 1948 میں ان کی نقلِ مکانی عارضی ہو گی۔ "آخری بار ہم چلے گئے اور کبھی واپس نہیں آئے،" انہوں نے کہا۔ طولکرم میں اسرائیلی فوج کے بلڈوزر تنگ گلیوں کا موٹا فرش اکھاڑ رہے تھے جہاں سالوں سے فلسطینی پناہ گزینوں آباد ہیں۔ کنکریٹ کی تین چوڑی روشیں اب طولکرم کیمپ کے اطراف میں پھیلی ہوئی ہیں جو فوج کے لیے آسان رسائی ممکن بناتی ہیں۔ بلڈوزر پھیرنے کے بعد ملبے اور کنکریٹ کے ڈھیر سڑک کے کنارے پڑے ہیں۔ عجاج نے کہا کہ یہ تباہی کارروائی کے دوران بتدریج ہوئی جسے فوج نے "آئرن وال" کا نام دیا ہے۔ وسیع رسائی والی سڑکوں کی فوجی افادیت کے علاوہ کئی رہائشیوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کیمپوں کے تصور کو ہی تباہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور انہیں ان شہروں کے باقاعدہ محلوں میں تبدیل کر رہا ہے جن کے اطراف میں یہ واقع ہیں۔ رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ اس سے ان کی پناہ گزین کی حیثیت اور اس زمین پر ان کے "حقِ واپسی" کو خطرہ ہو گا جہاں سے وہ یا ان کے آباؤ اجداد 1948 میں فرار ہو گئے یا بے دخل کر دیئے گئے تھے۔ موجودہ اسرائیلی حکومت اور خاص طور پر اس کے کچھ انتہائی دائیں بازو کے وزراء جو مغربی کنارے کے مکمل الحاق کا مطالبہ کرتے ہیں، فلسطینیوں کے اس مطالبے یا حق کے سخت مخالف ہیں جسے وہ یہودی ریاست کے طور پر اسرائیل کی بقا کے لیے آبادیاتی خطرہ سمجھتے ہیں۔ طولکرم کے دوسرے قریبی پناہ گزین کیمپ نور شمس کے رہائشیوں کے وکیل سلیمان الزہیری جہاں وہ خود بھی رہتے ہیں، نے کہا: "اس کا مقصد واضح طور پر پناہ گزین کیمپ کی قومی علامت کو مٹانا اور مہاجرین کے مسئلے اور حقِ واپسی کو ختم کرنا ہے۔" زہیری کے بھائی کا گھر گذشتہ ہفتے بلڈوزر سے تباہ ہو گیا تھا۔ انہوں نے کہا، "یہ منظر دردناک اور المناک تھا کیونکہ گھر صرف دیواریں اور چھت نہیں ہوتا۔ اس میں یادیں، خواب، امیدیں اور بہت اہم چیزیں اور سامان ہوتا ہے جو ہمیں دوبارہ نہیں مل سکتے۔" انہوں نے مزید کہا کہ ہر منہدم عمارت میں کم از کم چھ خاندان تین منازل پر رہتے تھے۔ کیمپوں کے لیے مختص کردہ زمین محدود تھی تو رہائشیوں کے پاس جگہ حاصل کرنے کے لیے اوپر کی طرف تعمیر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا جس سے ہر نئی نسل کے ساتھ مزید ایک منزل کا اضافہ ہو گیا۔ طولکرم کیمپ میں واپسی پر 66 سالہ عمر عوفی نے کہا کہ وہ بدھ کے روز سامان کی بازیافت کے لیے کیمپ کا دو دفعہ چکر لگانے میں کامیاب رہے جو اب اسرائیلی فوجیوں کے زیرِ قبضہ ہے۔ انہیں خوف تھا کہ اگر اس کا گھر گرا دیا گیا تو وہ بے گھر ہو جائیں گے۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، "انہیں اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ گھر کی اہیمت کیا ہے۔ انہیں صرف گرانے کی پرواہ ہے۔ ہم ہی اپنے گھروں سے محروم ہو رہے ہیں۔ ہم نے سب کچھ کھو دیا ہے۔ زیادہ سے زیادہ عمارات ہٹانے اور صرف سڑکیں چھوڑنے کے لیے وہ کیمپ کو ختم کر دینا چاہتے ہیں۔" انہوں نے کہا، وہ اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے لیے خوفزدہ ہیں کیونکہ وہ مختلف رشتہ داروں کے ساتھ رہنے کے لیے منتشر ہو گئے تھے۔ فلسطینی انسانی حقوق کی تنظیم عدلہ نے کہا کہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے جمعرات کے روز طولکرم کیمپ میں وسیع پیمانے پر مسماری کا فوجی حکم منجمد کر دیا جس سے ریاست کو دو ماہ کا وقت مل گیا کہ وہ اپن خلاف دائر درخواست کا جواب دے۔ لیکن مادی نقصان پہلے ہی ہو چکا ہے کیونکہ فوج کی مزاحمت کاروں کے لیے تلاش جاری ہے۔ بدھ کے روز جب رہائشیوں نے اسرائیلی فوجیوں کی نگرانی میں کیمپ سے گدے، الماریاں اور ایئر کنڈیشنگ یونٹس حاصل کیے تو گلیوں میں گولیاں چلنے لگیں۔ ایک زوردار دھماکے کی آواز پورے شہر میں گونجی، اس کے بعد گرد و غبار کا ایک بادل بلند ہو رہا تھا کیونکہ ایک اور عمارت بظاہر اڑا دی گئی تھی جس سے فضا میں بارود کی بو پھیل رہی تھی۔
Source: social media
حماس دوبارہ پہلے جیسی طاقتور ہوگئی ہے، اسرائیلی فوجی جنرل کا اعتراف
بہار کے ووٹروں کو ملی بڑی راحت، اب فارم کے ساتھ دستاویزات جمع کرانا نہیں ہوگالازمی،بی ایل او کریں گے سبھی کام
دھماکہ خیز مواد صاف کرتے ہوئے پاسدارانِ انقلاب کے دو ارکان ہلاک
اسرائیل کی دھمکیوں میں آ کر ہتھیار نہیں ڈالیں گے: حزب اللہ
اسرائیلی فوج کے بلڈوزروں نے مغربی کنارے کے کیمپوں میں گھر مسمار کر دیئے
غزہ میونسپلٹی: ہزاروں خاندان ایک ہفتے سے پانی سے محروم ہیں
بہار کے ووٹروں کو ملی بڑی راحت، اب فارم کے ساتھ دستاویزات جمع کرانا نہیں ہوگالازمی،بی ایل او کریں گے سبھی کام
کوئی جوہری سانحہ رونما ہوا تو پوری دنیا اس کی قیمت ادا کریگی: چینی وزیرِ خارجہ
غزہ کے مکان پر اسرائیلی فوج کا حملہ، 12 فلسطینی شہید، 24 گھنٹوں میں شہداء کی تعداد 90 ہو گئی
ٹیکساس میں بدترین سیلاب، 70 افراد ہلاک، کیر کاؤنٹی سب سے زیادہ متاثر
ڈیڈلائن ختم، ہزاروں مہاجرین جمع ہونے سے ایران افغانستان سرحد پر ’ہنگامی صورت حال‘
اسرائیل نے بین الاقوامی تنظیموں کو شمالی غزہ میں امداد تقسیم کرنے کی اجازت دے دی
امریکہ کا مشرقِ وسطیٰ میں بڑی تعداد میں فوج موجود رکھنے کا فیصلہ
برطانوی جہاز پر حملہ، بحیرۂ احمر میں راکٹوں اور گولیوں کی بارش