International

امریکہ اور چین کا تجارتی جنگ میں نرمی کا تاریخی فیصلہ

امریکہ اور چین کا تجارتی جنگ میں نرمی کا تاریخی فیصلہ

دنیا کی دو بڑی معاشی طاقتوں امریکہ اور چین نے آج پیر کے روز ایک تاریخی اعلان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ آئندہ 90 دن کے لیے اپنی تجارتی جنگ میں نرمی کرتے ہوئے بعض درآمدی محصولات معطل کر رہے ہیں۔ اس فیصلے کا مقصد عالمی معیشت پر چھائی بے یقینی کی فضا کو ختم کرنا اور مالیاتی منڈیوں میں اطمینان بحال کرنا ہے۔ دونوں ممالک نے باہمی تجارتی تعلقات پر گفتگو جاری رکھنے کے لیے ایک مستقل مکالماتی نظام بھی قائم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ نے جنیوا میں چینی حکام سے ملاقات کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ دونوں ملک 90 دن کے لیے محصولات کے نفاذ کو معطل کر رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ درآمدی محصولات میں 100 فیصد سے زائد کمی کرتے ہوئے اسے صرف 10 فیصد کر دیا جائے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ امریکہ، چینی مصنوعات پر اپنی محصولات کو 30 فیصد تک محدود کرے گا، جبکہ چین بھی امریکہ سے درآمدات پر محصولات کو 125 فیصد سے گھٹا کر 10 فیصد تک لائے گا۔ یہ فیصلہ 14 مئی سے نافذ العمل ہوگا۔ اسکاٹ بیسینٹ نے کہا کہ دونوں ملکوں نے اپنے قومی مفادات کا مؤثر تحفظ کیا ہے اور امریکہ متوازن تجارت کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ چین کے ساتھ یہ معاہدہ ایک تاریخی پیش رفت ہے، جو کسی سابق امریکی صدر نے نہیں کی۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنیوا میں ہونے والی بات چیت میں چینی کرنسی یوآن کا معاملہ زیر بحث نہیں آیا۔ یہ اعلان اس وقت کیا گیا جب امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسینٹ، امریکی تجارتی نمائندے جیمسن گریئر، اور چین کے نائب وزیراعظم خہ لی فنگ نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی۔ چین نے بھی امید ظاہر کی ہے کہ امریکہ مستقبل میں بھی اسی جذبے کے ساتھ تجارتی معاملات میں تعاون جاری رکھے گا۔ یہ اہم معاہدہ دونوں ملکوں کے اعلیٰ سطحی مذاکراتی وفود کی ملاقات کے بعد سامنے آیا جو جنیوا میں اقوام متحدہ کے سفیر کی رہائش گاہ پر منعقد ہوئی۔ یہ رہائش گاہ جھیل جنیوا کے کنارے واقع ہے اور سرسبز باغات سے گھری ہوئی ہے۔ سوئٹزرلینڈ کو ملاقات کی جگہ اس لیے چنا گیا کیونکہ سوئس سیاستدانوں نے حالیہ دوروں میں امریکہ اور چین دونوں سے ملاقاتوں کے دوران ثالثی کی پیشکش کی تھی۔ یہ جنیوا مذاکرات صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ اور چین کے اقتصادی رہنماؤں کے درمیان پہلا براہِ راست رابطہ تھے۔ ٹرمپ نے اپنی واپسی کے بعد چینی مصنوعات پر بھاری محصولات عائد کر کے ایک نئی تجارتی جنگ کا آغاز کر دیا تھا۔ واشنگٹن کا موقف ہے کہ وہ بیجنگ کے ساتھ اپنا 295 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ کم کرنا چاہتا ہے اور چین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ عالمی صارفین میں اپنا حصہ بڑھانے کے لیے اپنے داخلی معاشی ڈھانچے میں سیاسی طور پر حساس اصلاحات کرے۔ ادھر مشرق وسطیٰ سے متعلق چینی اسٹڈی ایسوسی ایشن کے رکن نادر رونگ ہوان نے العربیہ بزنس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی کشیدگی کے خاتمے کی طرف ایک اہم قدم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چین اور امریکہ اس حقیقت کو سمجھ چکے ہیں کہ ان کی شراکت عالمی معیشت پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔ یاد رہے کہ جنوری میں صدر ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد امریکی درآمد کنندگان پر چینی مصنوعات پر عائد محصولات میں اضافہ کر کے اسے 145 فیصد تک پہنچا دیا گیا تھا، جب کہ اس سے پہلے بھی ٹرمپ اور بعد میں بائیڈن انتظامیہ نے متعدد مصنوعات پر اضافی ٹیکس لگائے۔ جواباً چین نے امریکہ سے آنے والی اہم اشیاء خصوصاً الیکٹرانکس اور دفاعی صنعت میں استعمال ہونے والے نایاب عناصر کی برآمدات پر پابندیاں لگا دیں اور امریکی مصنوعات پر محصولات کو 125 فیصد تک بڑھا دیا۔ یہ تجارتی تنازعہ جس کی مالیت تقریباً 600 ارب ڈالر کے قریب ہےعالمی تجارت کی رفتار کو شدید متاثر کر چکا ہے۔ اس سے سپلائی چینز منجمد ہو گئیں، مہنگائی میں اضافہ ہوا اور کئی ملازمین کو روزگار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ مالیاتی منڈیاں اب اس معاہدے کے بعد کسی بہتری کی امید لگا بیٹھی ہیں۔ وال اسٹریٹ کے اسٹاک فیوچرز میں بہتری دیکھی گئی اور امریکی ڈالر کی قدر میں بھی اضافہ ہوا، جس سے عالمی کساد بازاری کے خدشات وقتی طور پر کم ہوئے ہیں۔

Source: Social Media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments