Activities

مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ صنعت و حرفت کی بھی تعلیم دی جائے: مولانا فضل الرحیم مجددی

مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ صنعت و حرفت کی بھی تعلیم دی جائے: مولانا فضل الرحیم مجددی

جے پور، 16نومبر : مدارس اسلامیہ میں اسلامی علوم کے ساتھ جدید اور عصری تعلیمی نظام قائم کرنے پر زور دیتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری اور جامعتہ الہدایہ جے پورکے سربراہمولانا فضل الرحیم مجددی نے کہاکہ جب تک ہم مدارس میں دینی علوم کے ساتھ عصری علوم کا انتظام نہیں کرتے اس وقت تک ہم حالات سے نبرد آزما نہیں ہوسکتے۔ یہ بات انہوں نے کل شام جامعتہ الہدایہ میں عالمی رابطہ ادب اسلامی کے زیر اہتمام منعقدہ سہ روزہ عالمی سیمینار بعنوان ’مولانا عبدلرحیم نقشبندی مجددی: حیات وخدمات‘میں خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے موجودہ دور میں مدارس اسلامیہ کی طرف اٹھنے والی تلوار اورسازش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج صورت حال یہ ہے کہ بڑے پیمانہ پرمدارس میں اصلاح کی بات ہورہی ہے بلکہ اصلاح پرمجبورکیا جارہا ہے۔انہوں نے کہاکہ بانی جامعتہ الہدایہ جے پورمولانا عبدلرحیم نقشبندی مجددی نے پچاس برس پہلے ہی ادراک کرلیاتھاکہ اگر مدارس کوشرورفتن سے بچانا ہے تو دینی تعلیم ساتھ کے ساتھ عصری تعلیم کا بھی انتظام کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ بانی جامعہ کے جد امجدمولانا شاہ ہدایت علی نے مدرسہ تعلیم اسلام قائم کرتے ہوئے لکھا تھاکہ مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ صنعت و حرفت کی بھی تعلیم دی جائے۔ انہوں نے کہاکہ بانی نے اسی نہج پرادارہ قائم کیا اوریہاں دینی علوم کیساتھ عصری تعلیم بھی جارہی ہے اور یہاں کے فارغین ڈاکٹر،انجینئرس اور دیگرعلوم میں اپنا نام پیدا کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ بانی جامعہ کا مقصد ایک اسلامی یونیورسٹی قائم کرنا تھا اوراسی سمت میں ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔ان کا نظریہ مدارس کے سلسلے میں صاف اوروسیع تھاکہ اگرکامیاب ہوئے توسارے مدارس اسی طرف چل پڑیں گے۔ الحمداللہ آج بیشترمدارس اسلامیہ اپنے نصاب میں اسکولی تعلیم کو شامل کر رہے ہیں۔انہوں نے کہاتھا کہ عصری تعلیم آج اختیاری ہے لیکن کل اجباری ہوگی۔آج سخت دباؤ کی وجہ سے اہل مدارس اسکولی نضاب کو شامل کر رہے ہیں۔ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ اترپردیش میں مدارس پرمنڈرانے والے خطرات سے سبھی واقف ہیں۔لہذااس سمت شدت سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ انٹیگرل یونیورسٹی کے بانی چانسلر پروفیسرسید وسیم اخترنے کہا کہ مولاناعبدالرحیم مجددی مجددکادرجہ رکھتے تھے جنہوں نے جدید و قدیم علوم کے درمیان ایک پل بنایا۔انہوں نے جامعہ ہدایہ کا ایک خاکہ پیش کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور دین ایک دوسرے جدا نہیں ہے۔انہوں نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دین دنیا کے بغیر مکمل ہے اور نہ ہی دنیا دین کے بغیر مکمل ہے۔ پھرکیوں نہ مدارس اسلامیہ میں عصری علوم کو پڑھایا جائے۔انہو ں نے مولانا عبدالرحیم کوخراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگراس طرح کی شخصیت پیدا ہوجائے تو آج کے حالات بدل جائیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے کہنے کا مطلب ہرگز نہیں کہ مدارس میں کوئی تبدیلی کی جائے۔ بلکہ اس میں عصریء علوم کو بھی شامل کرلیا جائے۔انہوں نے مولانافضل الرحیم مجددی کو ایک ہونہاربیٹاقراردیتے ہوئے کہاکہ وہ ان کے خواب کو پورا کریں گے۔ ندوۃ العلماء لکھنو کے ناظم اعلی مولانا سید بلال عبدالحئی حسنی ندوی نے عالمی رابطہ ادب اسلامی دعوت و فکرکے پیغامبر مولانا شاہ عبدالرحیم کی حیات و خدمات کوموضوع بنایا ہے یہ بروقت اور برمحل ہے۔ ساتھ ہی انہوں نے کہاکہ سائنس تکنالوجی کے ساتھ اخلاقی بلندی پرتوجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے صاف ستھراادب پرزور دیتے ہوئے کہاکہ عصری نظام تعلیم مغرب زدہ ہے جس میں اخلاقی خرابیاں ہیں۔ مولانا شاہ عبدالرحیم نے اس سمت میں قدم بڑھاکربڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جامعہ عربیہ برکات الاسلام کھیروا کے سربراہ اور دارالعلوم دیوبند کے مجلس شوری کے رکن مولانا حسن محمود قاسمی نے عالمی رابطہ ادب اسلامی کے خدمات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ آج کل چکنی چپٹی باتوں کا نام ادب رہ گیا ہے حالانکہ کسی زبان میں موثر ڈھنگ سے بات پیش کرنے کا نام ادب ہے۔ انہوں نے مولانا شاہ عبدالرحیم کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہاکہ مولانا چالیس قبل جوخاکہ پیش کیا تھا اور عملی جامہ پہنایاتھااور ایسی زبان کی طرف توجہ مبذول کرائی جو ادبی بھی ہے اور اسلامی بھی۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے صدرمولانا سید جففر مسعود حسنی ندوی نے اسلامی نظریہ رکھنے والے شاعروں اور دیبوں کی حوصلہ افزائی پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ترقی پسند ادیبوں نے جس طرح مسموم ادبی فضا قائم کی تھی اور اسلامی نظریہ رکھنے والے شاعروں اورادیبوں کو نظر اندا ز کیا تھا، ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی عالمی رابطہ اسلامی کے مقصد کا ایک حصہ ہے۔ کناڈاسے تشریف لائے ڈاکٹر سعید فیضی ندوی اور ڈاکٹر اقبال مسعود ندوی نے اس طرح کا پروگرام کناڈا میں کرنے پر زور دیا اور کہاکہ تمام زبانوں کے لوگوں کو اس سے جوڑ کر بے ادبی دور کی جاسکتی ہے۔دیگر مقررین میں مولانا وارث مظہری اسسٹنٹ پروفیسر جامعہ ہمدرد نئی دہلی،پروفیسر فہیم اختر ندوی پرمولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد اور دیگر افراد شامل تھے۔سکریٹری رپورٹ مولانا اقبال ندوی نے پیش کی جب کہ نظامت کفے فرائض مولانا ڈاکٹر عارف جنیدندوی نے کی۔جامعتہ الہدایہ جے پور کے نائب امیر مولانا حبیب الرحیم مجددی نے کلمات تشکر پیش کیا۔

Source: uni news service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments