اسرائیل کے ساتھ بارہ روزہ جنگ اور جوہری تنصیبات پر امرریکہ کی بد ترین بمباری سے گزرنے والے ایران نے اپنے ہاں برسوں سے مقیم افغان پناہ گزینوں کو واپس جانے کا کہہ دیا ہے۔ یہ حکم تقریبا سات لاکھ افغانیوں کے لیے ہے۔ جس سے پناہ لیے ہوئے افغانیوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ حاجر شادمانی کا خاندان بھی انہی ایران سے نکالے ہوئے خاندانوں میں سے ایک ہے۔ اس خاندان کو ایران سے افغانستان یعنی اپنے وطن آنے پر کئی گھنٹے گردو غبار اور سخت گرمی کے موسم میں سرحد کے پاس گزارنا پڑے۔ شادمانی کے اس خاندان کے پاس ایران سے نکلنے پر محض چند صندوقچے ہیں۔ یہی ان کی زندگی کا اب جمع شدہ سب مال اسباب ہیں۔ اس کے تین بہن بھائیوں کے علاوہ ہزاروں دوسرے افغان شہریوں کو بھی ایران اور افغانستان کے درمیان اسلام قلعہ بارڈر سے گذش کر افغانستان میں داخل ہونا تھا۔ اقوام متحدہ اور افغانستان کے حکام کے مطابق افغانوں کی ان اکثریت کا کہنا ہے کہ انہیں زبردستی نکالا گیا ہے۔ شادمانی کا کہنا ہے اس کے خاندان نے ایران میں چالیس سال کی پناہ گزینی کاٹی ہے اور خود اس کی پیدائش بھی ایران میں ہوئی تھی۔ لیکن اس ملک نے ہمیں کبھی قبول نہیں کیا۔ شادمانی نے بتایا جب پولیس نے اس کے خاندان سے شیراز شہر میں ان کے گھر آکر انہیں ایران چھوڑ کر چلے جانے کے لیے کہا تو ہمارے پاس کوئی اور آپشن باقی نہ تھی کہ ہم سرحد عبور کریں اور افغانستان میں داخل ہوں ۔ شادمانی نے کہا لیکن بد قسمتی سے افغانستان بھی ہمارے لیے اجنبیت رکھتا ہے۔ ہمارا افغانستان میں بھی کچھ نہیں ہے۔ اس کا کہنا تھا ایران یونورسٹیوں میں بھی اسے قبول نہ کیا گیا جبکہ افغانستان میں طالبان نے خواتین کے لیے یونیورسٹیوں کے دروازے پہلے ہی بند کر دیے ہیں۔ اس لیے اب میری تعلیم کا سلسلہ لٹک جائے گا۔ حاجر شادمانی نے کہا مجھے پرھائی سے محبت ہے۔ میں پڑھنا چاہتی ہوں مگر اب افغانستان میں تو یہ ممکن نہ ہو سکے گا کہ میں پڑھوں۔ ہرات کے نزدیک سے اسلام قلعہ بارڈر عبور کرنے پر سرحدی چیک پوائنٹ پر معمول سے بھی زیادہ رش تھا۔ اس سرحد سے سمگلنگ کا بھی عمل جاری رہتا ہے۔ اسی سرحدی راستے سے نقل مکانی ہوتی ہے ، ملک بدری کی جاتی ہے اور سمگلنگ بھی۔ لیکن جب سے ایران نے افغانیوں کو چھ جولائی تک ایران چھوڑنے کے لیے کہا ہے بہت بڑی تعداد سرحدی چوکی پر آرہی ہے۔بڑی تعداد افغانی خاندانوں کی ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ' آئی ایم او ' کے مطابق صرف ماہ جون کے دوران دو لاکھ تیس ہزار افغانی ایران سے اپنے ملک میں آئے ہیں۔ جبکہ جنوری سے اب تک چھ لاکھ نوے ہزار افغانیوں نے ایران سے افغانستان واپسی کی ہے۔ ' اے ایف پی ' سے واپس آنے والے افغانیوں میں سے ایک درجن سے زیادہ نے بات کی مگر سبھوں نے یہی کہا ہے کہ انہیں اسرائیل اور ایران جنگ کی وجہ سے نہیں نکالا گیا بلکہ کچھ بھی بتائے بغیر ایران نے نکال دیا ہے۔نکلنے کے لیے دباو بڑھا گیا ، گرفتاریوں کی دھمکیاں دی گئیں۔ تاہم ایران چھوڑنے میں ہماری مدد کی گئی۔ یاداللہ علی زادے نے کہا وہ صرف اپنے کپڑوں اورا س ٹوٹے فون کے ساتھ واپس آیا ہے ۔اس فون سے اپنے خاندان سےرابطہ کر رہا ہے۔ علی زادے کے مطابق ' ڈی پورٹ ' کیے جانے والے افغانیوں کو بسیں ' آئی ایم او ' کے بنائے ہوئے استقبالیے کے پاس اتار رہی تھیں۔ ایک 37 سالہ افغانی نے بتایا اسے مزدوری کرنے پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔مگر حراست میں رکھنے کے بعد ' ڈی پورٹ ' کر دیا گیا ہے۔ اسے اکیلے ہی ' ڈی پورٹ ' کیا گیا ہے ۔ خاندان کے لوگوں سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔ میں رات سرحد پر ایک گتے پر سویا ہوں۔ اب میں یہاں سرحد پر اپنے خاندان کا منتظر ہوں۔ اس نے اپنے خاندان کے بارے میں بتایا میرے تین بچے بھی ابھی وہی ہیں وہ تینوں بیمار ہیں۔ مگر کوئی جانتا کہ وہ کہاں پہنچیں گے اور کیسے۔ امید ہےکہ مجھے واپسی پر مزدوری مل جائے گی۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں سے متعلق ادارے نے بتایا ہے کہ ' ڈیپورٹ ' ہو کر آنے والوں کی بڑی تعداد آرہی ہے۔ جن کے پاس بے سروسامانی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جبکہ افغانستان میں ان کے لیے کسی روزگار کے امکانات بھی نہیں ہیں۔ ایران سے ' ڈی پورٹ ' ہونےوالوں کی استقبالیہ مرکز کے پاس استقبالیہ مرکز کے چاروں طرف لگے خیموں میں لمبی افغانیوں کی قطاریں ہیں۔ واپس آنے والے اقوام متحدہ اور این جی او کے علاوہ سرکاری حکام کی خدمات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ موسم کی شدت ایرانی طرز کے لباس میں ملبوس خواتین اور نوجوانوں کے مغربی طرز کے لباس کو مشکل میں ڈال رہی ہے۔ آگے افغانستان میں بھی لباس کے معاملے پر الگ خیالات اور پردے کی تشریح مختلف ہے۔ افغانستان کے نائب وزیر اعظم عبدالسلام حنفی نے اس جگہ کا دورہ کرکے افغانستان لوٹنے والوں کو ایران میں تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے اور کہا ہے کہ طالبان حکومت ایران کے ساتھ رابطے میں ہے۔ کسی بھی فرد کے ضبط کیے گئے اثاثے اسے واپس ملیں گے۔ طالبان حکام ملک سے باہر اپنے شہریوں کے ساتھ باوقار سلوک کی کوشش میں ۔ اس لیے مسلسل ایران اور پاکستان سے رابطے میں ہیں۔ یاد رہے رواں سال دونوں پڑوسی ممالک سے اب تک 10 لاکھ سے زائد افغانی واپس اپنے وطن پہنچ چکے ہیں۔ ابھی مزید کے آنے کی توقع ہے۔ صرف ایران کی ڈیڈ لائن سے تقریبا چالیس لاکھ افغانی متاثر ہوں گے۔ جبکہ اقوام متحدہ کے ادارے ' آئی ایم او ' کہنا ہے کہ وہ ایک محدود تعداد کو ہی خدمات دے سکتا ہے۔ فوری طور پر ہرات میں ایک مرکز بنایا گیا ہے جہاں ان واپس آنے والوں کو کھانا اور رات کےآارام کا موقع مل سکتا ہے۔ اس ٹانزٹ سنٹر میں بہارہب راشدی پریشان ہیں کہ افغانستان میں اس کا اور اس کے آٹھ بہن بھائیوں کا مستقبل کیا ہوگا۔ راشدی اپنے والد کے انتقال کے بعد خاندان کو لے کر ایران غیر قانونی طور پر منتقل ہو گئی تھیں تاکہ کوئی روز گار لے کر اپنے خاندان کا پییٹ پال سکیں۔ ایک 19 سالہ افغانی بتایا کہ ان کے خاندان میں ایسا کوئی فرد نہیں جسے افغانستان میں روزگار کی توقع ہو۔
Source: social media
پاگل کمیونسٹ کو نیویارک تباہ کرنے نہیں دونگا، اختیارات میرے پاس ہیں، ٹرمپ
قازقستان میں عوامی مقامات پر ’نقاب پہننے‘ پر پابندی عائد
ایران کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، پیوٹن
ترکیہ، گستاخانہ خاکہ شائع کرنے پر کارٹونسٹ اور میگزین ایڈیٹر گرفتار
چین کا پُر اسرار ‘بلیک آؤٹ بم’ منظر عام پر آگیا
ایرانی صدر کا عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے سے تعاون معطل کرنے کا اعلان
امریکا نے یوکرین کو ہتھیاروں کی فراہمی روکنے کا فیصلہ کرلیا، روس کا خیرمقدم
حماس کا غزہ سے غداری کرنے والے یاسرابوشباب کو سرینڈر کرنے کا حکم
روس کا خوف، ڈنمارک میں خواتین کے لیے بھی لازمی فوجی سروس کا آغاز
وقت آ گیا ہے کہ غرب اردن کو اسرائیل میں ضم کر لیا جائے:اسرائیلی وزیر انصاف