ترکیہ میں کرد علاحدگی پسند گروپ ’کردستان ورکرز پارٹی’ پی کے کے نے چالیس سالہ مسلح جدو جہد ترک کرتے ہوئے جماعت کو تحلیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق "پی کے کے" کا اسلحہ جمع کرنے کا عمل آئندہ جون کے آخر تک مکمل ہو جائے گا۔ یہ فیصلہ پارٹی کی بارہویں کانفرنس کے دوران کیا گیا، جو پانچ سے سات مئی کے درمیان شمالی عراق میں منعقد ہوئی۔ کانفرنس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیے میں پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنے اور مسلح جدوجہد کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس کے ساتھ ہی وہ سرگرمیاں بھی ختم ہو گئی ہیں جو اس جماعت کے نام سے جاری تھیں۔ فرات نیوز ایجنسی نے پارٹی کے ایک بیان کے حوالے سے بتایا کہ ترک اور کرد تعلقات کو از سرِ نو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ بیان میں ترک حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ پارٹی کے قید رہنما عبداللہ اوجلان کو قانونی اور سیاسی ضمانتیں فراہم کرے۔ مزید کہا گیا کہ اب کرد سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کرد جمہوریت کو فروغ دیں اور ایک جمہوری کرد قوم کی تشکیل کو یقینی بنائیں۔ پارٹی کے بیان میں کہا گیا کہ جماعت نے اپنا "تاریخی مشن" مکمل کر لیا ہے۔ یہ اعلان پارٹی کے بانی عبداللہ اوجلان کی اس اپیل کے جواب میں سامنے آیا ہے جو انہوں نے فروری میں جیل سے دی تھی۔ اس میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا کہ ہتھیار ڈال کر پارٹی کو ختم کر دیا جائے۔ پارٹی نے یکم مارچ کو اوجلان کی اپیل کا مثبت جواب دیا اور چالیس سالہ جنگ کو ختم کرنے کا عندیہ دیا۔ اسی روز پارٹی نے فوری طور پر جنگ بندی کا اعلان کر دیا۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھی ہفتے کو ایک تقریر میں عندیہ دیا تھا کہ پارٹی کے خاتمے کی خبر کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ ان کی حکومت ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے نجات دلانے کے لیے پُرعزم ہے۔ کردستان ورکرز پارٹی 1978 میں قائم ہوئی تھی۔ ترکیہ ،امریکہ اور یورپی یونین اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیتے ہیں۔ اس نے 1984ء میں ترک حکومت کے خلاف ایک مسلح بغاوت کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد ترکیہ میں کرد ریاست کا قیام تھا۔ ترکی کی آبادی تقریباً 85 ملین ہے، جن میں سے تقریباً 20 فیصد کرد ہیں۔ اوجلان کی 1999 میں گرفتاری کے بعد سے اب تک اس تنازعے کو ختم کرنے کے لیے کئی کوششیں کی جا چکی ہیں، تاہم اس دوران 40 ہزار سے زائد افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ گذشتہ ایک دہائی سے امن کی کوششیں تعطل کا شکار تھیں، لیکن حال ہی میں ترک صدر رجب طیب ایردوآن کے کیمپ نے ایک نئی پہل کی۔ ان کے اتحادی اور قوم پرست رہنما دولت باہچلی نے اکتوبر میں حزبِ مساوات و جمہوریت کے وفد کے ذریعے اوجلان سے ملاقات کروا کر امن کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی۔ باہچلی نے اس وقت اوجلان کو تجویز دی تھی کہ اگر وہ تشدد کو خیرباد کہہ کر اپنی پارٹی کو ختم کر دیں تو ان کی رہائی پر غور کیا جا سکتا ہے۔
Source: Social Media
برطانوی وزیراعظم کے گھر آگ لگنے کی تحقیقات جاری
قطر نے لبنانی فوج کو 62 ہزار ٹن فیول بھیج دیا
ملائیشین ایئرلائن کے طیارے کی تباہی کا ذمہ دار روس ہے: اقوام متحدہ
میکسیکو : انتخابی مہم کے دوران فائرنگ، میئر امیدوار سمیت 4 افراد قتل
شیخ حمدان نے گولڈن ویزا سے متعلق بڑا اعلان کر دیا
غزہ، اسپتال پر اسرائیلی حملے میں مزید ایک صحافی شہید
اسرائیلی فوج کا یمن کی تین بندرگاہوں سے شہریوں کو انخلا کا حکم
حماس نے امریکی نژاد اسرائیلی فوجی عیدان الیگزینڈر کو عالمی ریڈ کراس کے حوالے کردیا
امدادی سامان کے ٹرک غزہ کی پٹی میں داخل ہونا شروع : اسرائیلی میڈیا
ٹرمپ نے پھر کہا :ہم نے بھارت – پاک کے درمیان ایٹمی جنگ روک دی،اس دھمکی پر دونوں مان گیے ورنہ–