International

طالبان نے ویڈیو گیمز اور ٹیبل فٹ بال پر بھی پابندی لگا دی

طالبان نے ویڈیو گیمز اور ٹیبل فٹ بال پر بھی پابندی لگا دی

طالبان نے افغانستان میں تفریحی سرگرمیوں پر اپنی پابندیوں میں اضافہ کردیا ہے۔ نئی ہدایات جاری کی گئی ہیں جن میں الیکٹرانک گیمز اور ٹیبل فٹ بال پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان سرگرمیوں کو "اسلامی شریعت کے خلاف" قرار دیا گیا اور کہا گیا ہے کہ یہ گیمز نوجوانوں کو ان کے دین سے غافل کرتی ہیں۔ طالبان حکومت کی جانب سے نوجوانوں پر معاشرتی پابندیوں کا دائرہ بڑھایا جارہا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان حکومت نے ہرات، بلخ اور دایکُندی صوبوں کے علاوہ درجنوں دیگر علاقوں میں الیکٹرانک اور تفریحی گیمنگ مراکز بند کر دیے ہیں۔ طالبان حکام نے ان گیمز کو نوجوانوں کو ان کے "دینی فرائض" سے غافل کرنے والا قرار دیا ہے۔ ان کے کچھ عہدیداروں نے ٹیبل فٹ بال میں کھلاڑیوں کے ماڈلز کو "بتوں" سے تشبیہ دی اور کہا کہ یہ کھیل شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔ ٹیبل فٹ بال کا کھیل ایک میز پر کھیلا جاتا ہے جس میں گھومنے والی سلاخوں پر کھلاڑیوں کے ماڈلز لگائے گئے ہوتے ہیں۔ یہ تفریحی مراکز میں سب سے زیادہ مقبول کھیلوں میں سے ایک ہے اور افغانستان میں سکولوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہمیں اسے بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔ اخبار "انڈیپنڈنٹ فارسی" کو دیے گئے بیانات کے مطابق کئی مراکز کے مالکان نے اس فیصلے پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا ہے۔ مالکان نے کہا کہ اس فیصلے سے انہیں بھاری نقصان ہوا ہے۔ اخبار نے بتایا کہ تفریحی مراکز کے مالکان نے ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کی وزارت سے رجوع کیا اور پابندی کے فیصلے کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا لیکن طالبان کے حکام نے انہیں ان مراکز کے بجائے کوئی اور کام تلاش کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ نئی پابندی حال ہی میں طالبان کی طرف سے افغانستان میں عوامی تفریح کی شکلوں پر لگائی گئی پابندیوں کے سلسلے میں ایک اضافہ ہے۔ چند دن پہلے طالبان نے شطرنج پر یہ دعویٰ کرتے ہوئے پابندی لگائی کہ اسے جوئے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح انہوں نے "وقت کا ضیاع" قرار دیتے ہوئے بلئرڈز پابندی لگا دی ہے۔ طالبان نے شیشہ کیفے بھی بند کر دیے ہیں۔ اس کے لیے یہ جواز دیا گیا کہ یہ کیفے نوجوانوں کے اخلاق کو بگاڑتے اور مردوزن کے اختلاط کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ لڑائی کے کھیلوں تک بھی پہنچ گیا جب وزارت ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ نے مکسڈ مارشل آرٹس پر پابندی لگا دی اور اسے "انتہائی پرتشدد" قرار دے کر اس سے متعلق تمام مقابلوں کو روک دیا۔ اس سے بھی زیادہ سخت اقدامات کے تحت طالبان نے خواتین کو کسی بھی قسم کی کھیل میں حصہ لینے سے روک دیا ہے۔ فٹ بال اور والی بال جیسے کھیلوں میں نوجوانوں پر پابندیاں عائد کی ہیں۔ نوجوانوں کو ایسے لباس پہننے پر مجبور کیا گیا جو ان کے جسم کے تفصیلات نہ دکھائیں اور ان کے لباس گھٹنوں سے اوپر تک نہ ہوں۔ یہ سخت پابندیاں ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب افغان نوجوانوں کو بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح اور روزگار کے مواقع میں کمی کا سامنا ہے۔ اسی دوران نوجوانوں کے لیے تفریح کے لیے تقریبا کوئی بھی جگہ نہیں ہے۔ غیر سرکاری اندازوں کے مطابق افغانستان میں نوجوانوں اور خواتین کے درمیان بے روزگاری کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ مقامی اخبار "ہشت صبح" کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ روزگار کے مواقع اور اقتصادی شرکت پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کے پیش نظر بے روزگاری کی شرح میں بے مثال اضافے کی توقعات ہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ ان اقدامات کا جاری رہنا معاشرے میں مزید تنہائی اور مایوسی کا باعث بنے گا۔ یہ اقدامات نوجوانوں کے ایک وسیع طبقے کو ہجرت کرنے یا غیر قانونی کاموں میں ملوث ہونے پر مجبور کردیں گے۔ مستقبل قریب میں کسی بھی طرح کی آسانی کی امید کے فقدان کے باعث نوجوانوں کی تکالیف بڑھ رہی ہیں۔ افغانستان کے بہت سے نوجوان وزارت ’’ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

1 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments