Activities

سول سروس امتحان کے ساتھ مسلمان تجارت کو بھی پیشے کے طور پر استعمال کریں

سول سروس امتحان کے ساتھ مسلمان تجارت کو بھی پیشے کے طور پر استعمال کریں

سول سروس امتحان کے ساتھ مسلمان تجارت کو بھی پیشے کے طور پر استعمال کریں ایک طوریل عرصہ سے ہندوستانی مسلمانوں کی کوششیں مرکزی تعلیم اور سرکاری ملازمتوں پر مرکوز ہیں۔سول سروس امتحان CSE بہت سارے طلباءکے لئے ایک مرکزی مقا م رکھتا ہے۔لیکن اس انتہائی مشکل مقابلے کےلئے اس کی خوب ساری تیاری اور کڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے باوجود بھی یہ طے نہیں رہتا ہے کہ آپ اس میںکامیاب ہوہی جائیں گے۔کافی کوششوں کے باوجود بھی ناکامی ہاتھ لگتی ہے۔ جس سے طلبا و طالبات میں مایوسی آجاتی ہے۔حالات کو دیکھتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ مختلف جائز طریقوں سے دوسرے شعبوں میں بھی امکانات تلاش کریں۔اور آگے بڑھنے اور ترقی کےلئے متبادل راستے تلاش کریں۔تجارت اور دوسرے پیشوں کے ذریعہ زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں۔ یہاںایک پریس کانفرنس کے دوران انٹر نیشنل ریلیشن میں جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے ماسٹر کی ہوئی ریشم فاطمہ نے یہ تجویز دی۔انہوں نے کہا کہ اسلام نے تجارت پر خاصہ زور دیا ہے۔یعنی یہ کہا جائے کہ تجارت کرنے کو ہی کہا ہے تو بیجا نہیں ہوگا۔تجارت کو عمدہ ، معتبر اور بہترین ذریعہ معاش کہا گیا ہے۔محمدﷺ ایک کامیاب ترین تاجر بھی تھے۔ان کی ایمانداری اور سچائی کا پورے عرب میں اس وقت چرچا تھا۔لوگ ان پر بھروسہ کرتے تھے۔دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا بھی ان پر بھروسہ ہوتا تھا۔صحابہ کرام بھی تاجر تھے۔ان کے کئی سارے ساتھی بھی تجارت سے جڑے ہوئے تھے۔تجارت اسلامی دنیا میں معاشی خوشحالہ کا اہم ترین ذرائع تسلیم کیا جا تا ہے۔قرآن مجید نے بھی جائز طریقے سے تجارت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔اور دھوکہ دھڑی کے اعمال سے روکتا ہے۔تجارت روحانی اور معاشی دونوں حیات زندگی کے لئے بہت اچھا پیشہ ہے۔تجارت کی متاثر کن مثالوں میں خدیجہ ؓ کی مثال پیش کی جاسکتی ہے۔ بی بی خدیجہؓ ، محمدﷺکی پہلی زوجہ ہیں۔ خدیجہ ؓ ایک کامیاب ترین تاجر خاتو ن تھیں۔ انہوں نے سعودی عرب میں تجارت کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔انہوں نے اپنی تجارت کو خیراتی مقاصد سے جوڑا اور اپنی دولت کو ضرورت مندوں کی حمایت کےلئے صرف کیا۔ خدیجہ ? کی کہانی مسلم عورتوں کےلئے ایک طاقتور یاد دہانی کے طورپر کام کرتی ہے جو تجارت سے جڑی ہوئی ہیں۔اور مکمل طور پر اپنی قوم کےلئے کام کرتی ہیں۔سول سروس کی طرف رغبت سمجھداری ہے ، اس کی عزت اور صلاحیت کو دھیان میں رکھنا ایک معاشرتی تاثر کےلئے بہتر ہے۔لیکن یہ راستہ نہایت کٹھن ہے۔ مقابلے کے کئی مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔بہت امیدوار ہی ہر سال کامیاب ہوپاتے ہیں۔بہت سارے طلبا و طالبات کئی برسوں سے اس کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔اس کی وجہ سے دوسرے میدانوں کے بہت سارے مواقع کھو دیتے ہیں۔سول سروس کی تیاری میں وہ بہت اہم اور قیمتی وقت کھو دیتے ہیں۔مسلمان ہندوستان میں خاص کر نوجوان نسل متبادل راستے کو ترقی کےلئے اپنائیں ، تجارت شروع کریں، اسے چلائیں اور اس کے ذریعہ مالی آزادی حاصل کریں۔ وہ نوکریاں پیدا کرسکتے ہیں۔ قوم کی ترقی میں اہم رول انجام دے سکتے ہیں۔چھوٹی تجارت سے لے کر اسٹارٹ اپ بزنس شروع کر سکتے ہیں۔تجارت کے لئے مواقع وسیع ہیں۔سرکار ی ڈھیر ساری اسکیمیں ہیں۔ جیسے اسٹنڈ اپ انڈیا، اور مدرا لون وغیرہ۔ ان اسکیموں سے فائدہ اٹھایا جا سکتاہے۔اس کے علاوہ ٹکنالوجی، ادویات، قانونی تعلیم اور دوسرے فن میں بھی اپنا راستہ بنا سکتے ہیں۔یہ بہت عمدہ راستے ہے جس سے وہ سوسائیٹی کی ترقی دے سکتے ہیں۔ مسلمانوں کو پیشہ وارانہ تربیت، ہنر کی ترقی، پر زور دینا چاہئے تاکہ ان میدانوں میں اپنی مضبوط موجودگی کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ فلم، میڈیا، اور ڈیجیٹل مواد کی تیاری بھی ایسے ذرائع ہیں جو خود کو ظاہر کرنے اور معاشی ترقی کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔اس کے ذریعہ وہ معاشی ترقی میں اہم رول نبھا سکتے ہیں۔مسلم نوجوانو ں کو چاہئے کہ وہ نئی نئی کمپنیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اس کے ذریعہ وہ دقیانوسی تصورات کے خلاف لڑبھی سکتے ہیں۔اور اپنے آپ کی موجودگی کو ترقی دے سکتے ہیں۔ہندوستان کی معاشی زراعت اور چھوٹے پیدا کرنے والے کمپنی پر مرکوز ہے۔ ان شعبوں میں شامل ہوکر ایک دائمی روزی روٹی کا انتظام کرسکتے ہیں اور کھانے کی حفاظت اور مسلسل ترقی کی راہ ہموار کرکے ملک کی ترقی میں اپنا نام درج کرواسکتے ہیں۔اور ملک کو اس طرح آگے لے جاسکتے ہیں۔اور اس طرح وہ پوری قوم کےلئے مشعل راہ بن سکتے ہیں۔کامیان ترین مثالوں میں معاشرے کے چلنے والے بینک اور مشترکہ زراعت کے ماڈل شامل ہیں۔ خدیجہ ؓ کی کہانی ہندوستا ن میں مسلم عورتوں کے لئے ایک قابل قدر اسباق فراہم کرتی ہے، معاشرتی و تہذیبی رکاوٹوں کے باوجود، مسلم عورتیں صلاحیت رکھتیں ہیں، وہ تجارت ، تعلیم اور دوسرے میدانوں میںاہم رول نبھا سکتی ہیں۔عورتوں میں کاروبار کا رحجان پیدا کرنے کےلئے تربیتی پروگراموں کے ذریعہ ، مالی مدد کے سہارے ، پیشہ وارانہ تربیت کے ذریعہ انہیں مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں تاکہ وہ ترقی کرسکتیں اور قوم کا نام بلند کرسکیں۔مزید براں، عورتوں کی حوصلہ افزائی کےلئے انہیں مختلف کاموں کی تربیت دی جائے تاکہ وہ سائنس، ٹکنالوجی، فن ، اور دیگر شعبوں میں اپنا کیریئر تلاش کریں۔ ہندوستان کی کئی اہم خواتین مسلمان عورتوں کےلئے مشعل راہ بن سکتی ہیں۔ ان سے سیکھا جاسکتا ہے۔ ان میں فاطمہ بی بی کا نام قابل ذکر ہے جو ہندوستان کی پہلی مسلم خاتون ہیں۔انہوں نے سپریم کورٹ کے جج کی ذمہ داری سنبھالی۔دوسری طرف ثانیہ مرزا ہیں جو کھیلوں میں اپنا نام کمایا۔ عالمی پیمانے پر ان کی شہرت ہے۔ ٹینس میں وہ عالمی سطح کی کھلاڑی ہیں۔مسلم قوم کو آگے بڑھانے میں مسلم رہنما، علماءدین، اور غیر سرکاری ادارے اہم رول نبھا سکتے ہیں۔مدارس اور مساجد مل کر پیشہ وارانہ تربیت اور کیریئرکونسلنگ کو اپنے پروگراموں میں شامل کرسکتے ہیں۔این جی او اور شہری معاشرتی تنظیم بہتر جانکاری فراہم کرکے ان کی مدد کرسکتے ہیں۔اس کے علاوہ مالی تعلیم کو فروغ دے کر ،چھوٹی مال کی رسائی دے کر یہ ان لوگوں کق قابل بنا دیں تاکہ وہ تجارت شروع کرسکیں۔ اور معاشی مظبوطی حاصل کرسکیں۔ معاشرتی نظام پر امید تاجروں کو خرچ کرنے والے اور تربیت دینے والوں کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ یہ بھی اہم ترقی لانے میں اپنا عمدہ کردار ادا کرسکتے ہیں۔ہندوستانی مسلمانوں کی ترقی کا راستہ ایک مقصد کے دائرے میں محدود نہیں ہے بلکہ یہ مواقع تجارت اور دوسرے پیشے میں موجود ہیں۔ ریشم فاطمہ ، انٹرنیشنل ریلیشن میں ماسٹر، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی

Source: Social Media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments