Activities

قاری محمد اسماعیل ظفرؒ ایک عظیم دینی، علمی، ملی، سیاسی، سماجی اور فلاحی شخصیت تھے

قاری محمد اسماعیل ظفرؒ ایک عظیم دینی، علمی، ملی، سیاسی، سماجی اور فلاحی شخصیت تھے

(موسیٰ امام قاسمی) شہر کلکتہ کی مشہور و معروف دینی، علمی، ملی، سیاسی، سماجی اور فلاحی شخصیت قاری محمد اسماعیل ظفر کا گزشتہ 16 رمضان المبارک 1445 بمطابق 27 مارچ 2024 کو انتقال ہوگیا تھا۔ آج سنیچر کو ملی الامین کالج آڈیٹوریم میں ان کے تعلق سے ایک نمائندہ محفل تعزیت منعقد ہوئی جس میں شہر و ملک کی نمائندہ شخصیتوں نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کے محاسن کا تذکرہ کیا۔ مدرسہ باب العلوم، جبریل انٹرنیشنل اسکول، اے ہینڈ جیسے کلکتہ کے اہم ترین دینی، علمی اور سماجی اداروں کے سرپرست، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ، عالمی رابطہ ادب اسلامی جیسی قومی اور بین الاقوامی تنظیموں کی نمائندگی کرنے والے، دارالعلوم ندوة العلما، لکھنؤ کے رکن مجلس شوریٰ اور اس سے قبل وقف بورڈ، آل فیتھ فورم، مسلم انسٹی ٹیوٹ، محمڈن اسپورٹنگ کلب جیسے مشہور اداروں سے وابستہ رہنے والے قاری محمد اسماعیل ظفر کا ذکر خیر کرتے ہوئے عالمی شہرت یافتہ عالم دین مولانا محمد خالد ندوی غازی پوری، شیخ الحدیث، ندوة العلماءنے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے قاری صاحب سے بہت سارے اہم کا م لیے ہیں اور ان کو متعدد دینی و علمی خدمتوں کیلئے منتخب فرمایا تھا۔ ارشاد نبوی کے تحت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو تین ایسی نعمتیں عطا فرماتا ہے جو ان کے انتقال کے بعد بھی ان کیلئے ترقی درجات کا سبب بنتی ہیں۔ صدقہ جاریہ، علم نافع کا سلسلہ اور صالح اولاد، اللہ نے قاری صاحب کو ان تینوں نعمتوں سے مالا مال فرمایا ہے۔ وہ ایک خوش نصیب انسان تھے ۔ انہوں نے علم دین اور علم دنیا دونوں حاصل کیا اور ایسا سلسلہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے جہاں سے ملت کے بچے اور بچیاں دین و دنیا دونوں کا علم حاصل کرسکیں اور دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ مولانا ڈاکٹر صباح اسماعیل ندوی علیگ اور ان کے برادران سے اور قاری صاحب کے دیگر طالب علموں سے ہم کو امید ہے کہ وہ ان کے مشن کو زندہ رکھیں گے اور پوری انسانیت تک دین اسلام کا پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے۔ قاری فضل الرحمان، امام عیدین کلکتہ نے کہا کہ قاری اسماعیل صاحب ہمارے والد قاری عبد القوی ؒ کے ان شاگردوں میں ہیں جنہوں نے خدمت قرآن کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنایا۔ وہ ہمیں اس زمانے سے بہت عزیز رکھتے تھے جب وہ مدرسہ عظمتیہ میں حفظ اور قرأت کی تعلیم حاصل کررہے تھے۔اللہ نے ان کو دین و ایمان اورکتاب الٰہی قرآن مجید کی عظیم خدمات کیلئے منتخب فرمایا تھا۔ انہوں نے اپنے پیچھے ایسی اولاد اور ایسے شاگردوں کی جماعت چھوڑی ہے جو ان کا کام ضرور آگے بڑھائے گی۔ قاری شفیق قاسمی، امام ناخدا مسجد نے کہا کہ قاری صاحب کا انتقال ملت اسلامیہ کا عظیم نقصان ہے۔ ہم ایک مہربان سرپرست اور قدر دان مربی و رہنما سے محروم ہوگئے ہیں۔ ہم کو یقین ہے کہ اللہ نے ان کو نہایت اعلیٰ اور قابل رشک مقام عطا کیا ہوگا۔ شہر کی معروف دینی شخصیت اور شیعہ عالم دین مولانا سید مہر عباس رضوی نے کہا کہ وہ مجھے میرے والد کی طرح عزیز رکھتے تھے اور ہمیشہ مجھ کو بیٹا کہہ کر بلاتے تھے۔ میں نے ایک بار پھر اپنے والد کو کھو دیا ہے۔ وہ میرے والد مولانا اطہر عباس رضوی کے نہایت قریبی دوستوں میں تھے۔ وہ شیعہ سنی اتحاد کے عظیم داعیوں میں تھے اور نہ صرف پوری امت بلکہ پوری انسانیت کے سچے خیر خواہ تھے۔ اس سے قبل محمد ندیم الحق، ایم پی راجیہ سبھا اور مدیر اخبار مشرق نے ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ہم ایک سچے خادم انسانیت اور عظیم رہنما سے محروم ہوگئے ہیں۔ وہ ہمارے والد کے قریبی دوستوں میں تھے اور دونوں ایک دوسرے سے اہم باتوں میں مشورے کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کی رائے کا احترام کرتے تھے۔ احمد حسن عمران، سابق ایم پی اور چیئرمین مائناریٹی کمیشن نے کہا کہ قاری اسماعیل ظفر ایک عظیم بنگالی عالم دین اور ملی رہنما تھے۔ وہ بنگال کے دور دراز علاقوں کا دورہ بھی کرتے تھے اور ہر جگہ نہایت محبت و احترام سے ان کا استقبال کیا جاتا تھا۔ مولاعلی مسجد کے ممبر سے انہوں نے ہمیشہ قوم کو صحیح راستہ دکھانے کی کوشش کی۔ نثار احمد، جنرل سکریٹری مسلم انسٹی ٹیوٹ نے کہا کہ ہم کیا کہیں کہ ہم نے کیا کھو دیا ہے۔ وہ ایک عظیم بھائی، دوست، مربی، رہنما اور ملک و ملت کے سچے ہمدرد تھے۔ ایسا کہاں سے لائیں کہ ان سا کہیں جسے۔ اس موقع پر ڈاکٹر ارشد حسین خان، روہتاس بہار نے کہا کہ قاری صاحب اپنے آپ میں ایک مکمل ادارہ تھے۔ وہ تعلیمی، تصنیفی، سیاسی، رفاہی اور تحریکی شخصیت کے مالک تھے۔ آپ نے اکیلے اتنے کام کیے ہیں جتنے کام اکثر دفعہ بہت سارے لوگ مل کر بھی انجام نہیں دے پاتے ہیں۔ جلپاپور، سنسری، نیپال سے تشریف لائے ہوئے مہمان مولانا محمد رضوان ندوی نے کہا کہ قاری محمد اسماعیل ظفرؒ ایک بین الاقوامی شہرت کے حامل انسان تھے۔ ہمارے ملک میں ایک بڑا طبقہ ان کے نام اور کام سے واقف اور ان کا قدر دان ہے۔ انور پریمی صاحب نے کہا کہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ ہم نے ایک ساتھ کئی اہم تحریکیں چلائی ہیں اور ہر تحریک نہایت کامیابی سے آگے بڑھی ہے۔معروف سیاسی رہنما مختار علی نے کہا کہ قاری صاحب نے کچھ دنوں تک کلکتہ کانگریس اقلیتی سیل کے صدر کی حیثیت سے بھی کام کیا ۔ وہ ایک مخلص سماجی کارکن تھے۔ خواجہ احمد حسین اور ارشاد آرزو نے ان کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ مولانا عبدالقیوم ندوی نیپالی، مفتی محمد خالد اعظم حیدری، قاری ابوالحیات، قاری ظہور عالم، محمد تنویر افضل، ڈی ایم مدنی پور، شکیل احمد، آئی اے ایس، ڈاکٹر ایم این حق، ڈاکٹر حسن اقبال، ڈاکٹر نعیم انیس، اشتیاق احمد راجو، پرویز رضا، شمیم رحمانی، زاہد صدیق انصاری، ڈاکٹر محمد خالد حسین، ڈاکٹر محمد نسیم انصاری، محمد قمرالزماں، مولانا عبدالسلام ندوی اور مولانا مرشد عالم ندوی سمیت بہت ساری اہم شخصیات نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ جلسہ کی نقابت کے فرائض ڈاکٹر مولانا صباح اسماعیل ندوی نے انجام دیے۔

Source: Mashriq News service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

1 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments