National

پرینکاگاندھی نے لوک سبھا میں اپنے  پہلے بیان سے حکومت کو نشانہ بنایا، راہل گاندھی نے ستائش کی

پرینکاگاندھی نے لوک سبھا میں اپنے پہلے بیان سے حکومت کو نشانہ بنایا، راہل گاندھی نے ستائش کی

نئی دہلی، 13 دسمبر : وائیناڈلوک سبھا سیٹ سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے والی پرینکا گاندھی نے لوک سبھا میں اپنے پہلے خطاب کے دوران حکومت پر شدید حملہ کیا۔ اپنے خطاب کے دوران پرینکا گاندھی 32 منٹ تک بولیں، اس دوران انہوں نے ذات پات کی مردم شماری، اڈانی کا معاملہ اور ملک کی یکجہتی جیسے مسائل پر اپنی رائے پیش کی۔ پرینکا گاندھی کے پہلے خطاب کی کانگریس رہنما راہل گاندھی نے بھی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ پرینکا کا پہلا خطاب میرے پہلے خطاب سے کافی بہتر تھا۔ راہل گاندھی نے کہا کہ یہ ایک شاندار خطاب تھا، اور اسے یوں کہا جائے کہ یہ میرے پہلے خطاب سے بہتر تھا۔ پرینکا گاندھی کے خطاب کی سابق مرکزی وزیر اور کانگریس رہنما ششی تھرور نے تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ پرینکا گاندھی نے پارلیمنٹ میں پہلی بار رکن پارلیمنٹ کی طرح نہیں بلکہ بہت صحیح طریقے سے حکومت سے سوال کیا۔ انہوں نے پارلیمنٹ میں مکمل طاقت کے ساتھ اپنی بات رکھی۔ تھرور نے کہا کہ یہ ایک شاندار پہلا خطاب تھا۔ انہیں پارلیمنٹ میں آئے صرف 15 دن ہوئے ہیں، لیکن انہوں نے پورے پختگی، فراخ دلی اور ذہانت کے ساتھ اپنی بات رکھی۔ جس سے میں کافی متاثر ہوں ۔ پرینکا گاندھی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا آئین ایک سُرکشاکوچ ہے جو ملک کے عوام کو محفوظ رکھتا ہے۔ یہ انصاف، یکجہتی، اور اظہارِ رائے کی آزادی کا کوچ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سال میں حکومت نے اس سُرکشاکوچ کو توڑنے کی کوشش کی۔ اگر لوک سبھا کے نتائج مختلف آتے، تو آئین کو بدلنے کا عمل بھی شروع ہو چکا ہوتا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے آئین نے یکجہتی کا سرکشا کوچ فراہم کیا تھا لیکن وہاں نفرت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ وزیر اعظم آئین کی نقل کو ماتھے سے لگاتے ہیں، لیکن جب سنبھل، منی پور، ہاتھرس میں انصاف کی آواز اُٹھتی ہے تو ان کے ماتھے پر شکن تک نہیں آتی۔ پرینکا گاندھی نے کسانوں کے مسائل پر بھی بات کی اور کہا کہ زرعی قوانین بھی صنعت کاروں کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ وائیناڈ سے لے کر للیت پور تک یہ ملک کا کسان رورہا ہے۔ آفات آتی ہیں تو کوئی ریلیف نہیں ملتا۔ آج اس ملک کا کسان بھگوان کے بھروسے ہے۔ جتنے بھی قوانین بنے ہیں، وہ بڑے بڑے صنعت کاروں کے لیے بنائے جا رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے اپنے پہلے خطاب میں آئین کے بارے میں کہا کہ ہندوستان کا آئین آر ایس ایس کا دستور نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا آئین صرف ایک دستاویز نہیں ہے، یہ انصاف اور امید کی روشنی ہے۔ اس آئین نے ہر ایک شہری کو یہ حق دیا کہ وہ حکومت بنا سکتا ہے اور گرا بھی سکتا ہے۔ ہمارا آئین انصاف کی ضمانت دیتا ہے۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج ذات پات کی مردم شماری کی بات ہو رہی ہے۔ حکومت کے ساتھی نے اس کا ذکر کیا۔ یہ ذکر اس لیے ہوا کیونکہ انتخابات میں یہ نتائج آئے۔ پرینکا گاندھی نے مرکزی حکومت پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ آج کے راجہ کا لباس تو بدلتا ہے، لیکن ان کے پاس عوام کے درمیان جانے کی ہمت نہیں ہے۔ نہ ہی ان میں تنقید سننے کی طاقت ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج ملک میں خوف کا ماحول بنایا جا رہا ہے، لیکن خوف پھیلانے والے آج خود خوف میں جی رہے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ لوک سبھا میں یہ نتائج نہ آئے ہوتے تو آئین بدلنے کا کام بی جے پی شروع کر دیتی۔ اس انتخابات میں ان کو یہ سمجھ میں آ گیا کہ ملک کےعوام ہی اس آئین کو محفوظ رکھیں گے۔ اس انتخابات میں ہارتے ہارتے جیتنے کے بعد یہ احساس ہوا کہ آئین بدلنے کی بات اس ملک میں نہیں چل سکتی۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ملک کے لیے نہرو کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ نہرو نے ملک میں کئی پی ایس یوز قائم کیے۔ نہرو کو کبھی نہیں بھلایا جا سکتا۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ کیا ساری ذمہ داری نہرو کی ہے؟ آپ ہمیشہ پرانی باتیں کرتے ہیں، آپ کب اپنی بات کریں گے؟ آج کی بات کریں۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ آج حکومت صرف اڈانی جی کے منافع پر چل رہی ہے۔ جو غریب ہیں وہ اور غریب ہو رہے ہیں۔ جو امیر ہیں وہ اور امیر ہو رہے ہیں۔ آپ ناری شکتی کا قانون لائے ہیں، اسے لاگو کیوں نہیں کرتے؟ کیا آج کی ناری 10 سال اس کا انتظار کرے گی؟ پرینکا گاندھی نے کہا کہ لیٹرل انٹری اور نجی کاری کے ذریعے حکومت ریزرویشن کو کمزور کرنے کا کام کر رہی ہے۔

Source: uni news

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments