International

دوسری شادی کے لیے شوہر کی مدد کرنا ... مصری اسکالر نے اپنے بیان کی وضاحت کر دی

دوسری شادی کے لیے شوہر کی مدد کرنا ... مصری اسکالر نے اپنے بیان کی وضاحت کر دی

مصر کی جامعہ الازہر میں "فقہِ مقارن" کے پروفیسر ڈاکٹر احمد کریمہ نے باور کرایا ہے کہ ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ایک مباح عمل ہے ... اور بیوی پر لازم ہے کہ وہ شوہر کو بد کاری میں پڑنے سے روکنے کے لیے دوسری شادی کے حوالے سے شوہر کی معاونت کرے۔ انھوں نے مزید کہا کہ دوسری شادی کرنا ہر مرد کا حق ہے جس کے لیے اسے کوئی جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ مصری پروفیسر کے مطابق ایک سے زیادہ شادیاں کرنا نہ تو واجب ہے، نہ تجویز کردہ، نہ حرام، نہ مکروح بلکہ یہ ایک مباح عمل ہے یعنی جس کی اجازت دی گئی ہے۔ ہر شخص اپنی حالت سے بہتر واقف ہوتا ہے ... اور تعدد میں مادی اور حِسّی عدل (انصاف) شرط ہے۔ اس سے قبل الازہری شیخ نے یہ شعلہ انگیز بیان دیا تھا کہ بیوی کو چاہیے کہ وہ تعدد ازواج پر عمل کے لیے شوہر کی معاونت کرے اور اس کے راستے میں نہ آئے۔ شیخ احمد کا کہنا تھا کہ "ہم حلیلہ (حلال) کا انتخاب کریں یا خلیلہ (دوست) کا ؟ شیخ کا کہنا تھا کہ خلیلہ یا دوست سے بہتر ہے کہ حلال کا راستہ چنا جائے۔ بعض لوگوں نے شیخ کے موقف کو درست قرار دیا تاہم ان کے بیان میں دشوار بات بیوی کا تعدد کے سلسلے میں شوہر کی مدد کرنا ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ کی بات میں پہلی بیوی کے حقوق پر زیادتی ہے۔ العربیہ نیوز کے پروگرام میں جب میزبان نے شیخ سے پوچھا کہ آیا قرآن میں بیوی پر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ وہ دوسری یا تیسری بیوی کے انتخاب میں اپنے شوہر کی مدد کرے۔ اس پر شیخ احمد کریمہ کا جواب تھا کہ "تعدد ازواج اپنے اصل میں شرعا جائز اور دینِ اسلام میں مباح عمل ہے ... تعدد واجب نہیں ، حرام نہیں اور مکروہ نہیں ہے۔ تاہم اگر اس کے محرکات پائے جائیں مثلا عفت یا اولاد کا حصول ، تو پھر بیوی کو چاہیے کہ وہ اپنے شوہر کی مدد کرے اور کوئی اعتراض نہ کرے۔ یہ معاملہ مطلق یا عام نہیں ہے"۔ الازہری شیخ نے باور کرایا کہ ان کے پچھلے بیان کو سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا گیا۔ انھوں نے یہ نہیں کہا تھا کہ تعدد (یعنی ایک سے زیادہ شادی) واجب ہے، اور نہ ہی یہ کہا کہ عام حالات میں بیوی کو لازمی طور پر اپنے شوہر کی اس میں مدد کرنی چاہیے۔ شیخ احمد کریمہ نے واضح کیا کہ ان کا پچھلا بیان ایک مخصوص سوال کے جواب میں آیا تھا، جس میں ایک شخص، جو کسی دوسرے ملک میں تعلیمی وظیفے پر مقیم ہے اور اپنی بیوی سے دور ہے، اس کے مالی اور ذاتی حالات ایسے نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے پاس بلا سکے۔ وہ شخص اس بات سے ڈرتا تھا کہ اگر اس نے شادی نہ کی تو وہ گناہ میں مبتلا ہو جائے گا۔ ایسے غیر معمولی اور محدود حالات میں، شیخ کا کہنا تھا کہ اس شخص کو اس ملک میں نکاح کرنے کی اجازت ہے، اور اس کی بیوی کو اس کے اور نکاح کے درمیان رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ یہ ایک استثنائی معاملہ تھا، جو ایک خاص صورتِ حال سے متعلق تھا۔ جب شیخ سے یہ سوال کیا گیا کہ اگر شوہر کی بیوی ایک مکمل شریکِ حیات اور ماں کی تمام ذمہ داریاں پوری کر رہی ہے، اور ایسی کوئی مجبوری یا وجہ نہیں ہے جو دوسری شادی کو ضروری بنائے، تو کیا پھر بھی شوہر کو دوسری شادی کا حق حاصل ہے؟ تو شیخ احمد کریمہ نے جواب دیا کہ "اسلامی فقہ کے مطابق احناف اور حنابلہ کا موقف ہے کہ اگر تعددِ ازواج (ایک سے زائد شادی) کی کوئی معقول وجہ نہ ہو، تو ظلم سے بچنے اور اس خدشے کے تحت کہ شوہر اپنی بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر سکے گا، صرف ایک بیوی پر اکتفا کرنا چاہیے"۔ انھوں نے مزید کہا کہ "لہٰذا، تعدد کوئی فرض یا لازمی چیز نہیں ہے"۔ شیخ نے واضح کیا کہ تعددِ ازواج کوئی بے قاعدہ یا بے اصول عمل نہیں بلکہ شریعت میں ایک منظم اور مخصوص شرائط کے ساتھ جائز عمل ہے۔ کوئی شخص اسلامی اصولوں کو چیلنج نہیں کر سکتا۔ شیخ کے مطابق تعدد ایک مباح (جائز) اور شرعا قانونی عمل ہے، لیکن ہم بلا وجہ یا غیر ذمے داری سے اس کی ترغیب نہیں دیتے۔ ہاں، کچھ مخصوص حالات میں ہم بیوی کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس چیز کو قبول کر لے۔ شیخ احمد کریمہ کا کہنا تھا کہ شوہر کی دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی اجازت شرعی طور پر واجب نہیں، لیکن باہمی سمجھوتے اور حقوق کا خیال رکھنے کے لیے یہ بہتر رویہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ "ہم اللہ کے حکم سے انکار نہیں کرنا چاہتے، کون ہے جو اللہ کے کلام اور حکم کو معطل کر سکے؟" انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلامی اقتدار اور خوش حالی کے دور میں تعدد ازواج ایک عام رائج عمل تھا۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments