International

چین نے 30 ممالک کے ساتھ بین الاقوامی ثالثی گروپ تشکیل دے دیا

چین نے 30 ممالک کے ساتھ بین الاقوامی ثالثی گروپ تشکیل دے دیا

ہانگ کانگ میں 30 سے زائد ممالک نے بین الاقوامی ثالثی پر مبنی تنازعات کے حل کے گروپ کے قیام میں چین کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستان اور انڈونیشیا سے لے کر بیلاروس اور کیوبا تک 30 سے زائد ممالک کے نمائندوں نے ہانگ کانگ میں بین الاقوامی ثالثی تنظیم کے قیام کے کنونشن پر دستخط کردیے، جس کے بعد یہ ممالک چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ عالمی تنظیم کے بانی رکن بن گئے۔ رپورٹس کے بعد ترقی پذیر ممالک کی حمایت عالمی جنوب میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی ایک بڑی علامت کے طور پر سامنے آئی۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا جب جغرافیائی سیاسی تناؤ بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، جس کی ایک وجہ ٹرمپ کے تجارتی محصولات ہیں۔ وانگ کا منعقدہ تقریب میں کہنا تھا کہ چین کا مقصد قوموں کے درمیان تنازعات کو حل کرنے کے لیے ”چینی حکمت” فراہم کرنا ہے۔ چین نے طویل عرصے سے اختلافات کو باہمی افہام و تفہیم کے جذبے سے نمٹانے اور بات چیت کے ذریعے اتفاق رائے پیدا کرنے کی وکالت کی ہے۔ وانگ نے کہا کہ بین الاقوامی ثالثی تنظیم کا قیام ‘تم ہارو اور میں جیتو’ کی صفر رقم کی ذہنیت سے آگے بڑھنے میں مدد کرتا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہانگ کانگ کے صدر دفتر کا مقصد بین الاقوامی تنازعات کے پرامن حل فروغ ہے اور مزید ہم آہنگ عالمی تعلقات استوار کرنا ہے۔ اس تنظیم کو بیجنگ کی جانب سے ثالثی کے ذریعے تنازعات کو حل کرنے والی دنیا کی پہلی بین الحکومتی قانونی تنظیم قرار دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے اصولوں کے تحفظ کا ایک اہم طریقہ کار ہوگا۔ اس نے ہانگ کانگ کو ایشیا میں ایک بین الاقوامی قانونی اور تنازعات کے حل کی خدمت کے مرکز کے طور پر بھی قائم کیا ہے۔ وانگ کا کہنا تھا کہ نے زور دیا کہ اس میں بین الاقوامی ثالثی کے لیے منفرد سازگار حالات ہیں۔ شہر کی قانون کی حکمرانی انتہائی ترقی یافتہ ہے، جس میں مشترکہ قانون اور سرزمین چین کے قانون کے نظام دونوں کے فوائد شامل ہیں۔

Source: Social Media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments