International

ایران جوہری ہتھیاروں کی جانب بڑھ رہا ہے : آسٹریائی انٹیلی جنس

ایران جوہری ہتھیاروں کی جانب بڑھ رہا ہے : آسٹریائی انٹیلی جنس

آسٹریا کی انٹیلی جنس ایجنسی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ ایران جوہری ہتھیاروں کے حصول کی سمت پیش قدمی کر رہا ہے، اور یہ کوششیں اس کے اس عزم کا حصہ ہیں کہ وہ خود کو مضبوط کرے اور خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرے۔ آسٹریا کی خفیہ ایجنسی نے اپنی 211 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں ایک مکمل حصہ ایران کے بارے میں مختص کیا ہے۔ اس میں واضح کیا گیا ہے کہ ایران "اپنے عسکری ساز و سامان کو ہمہ جہت طریقے سے مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ وہ خطے پر اپنی بالادستی مسلط کر سکے"۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایران کا مقصد جوہری ہتھیاروں کا حصول ہے تاکہ وہ کسی بھی بیرونی خطرے سے محفوظ رہے اور مشرقِ وسطیٰ اور اس سے آگے کے خطے میں اپنی طاقت کو پختہ اور مستحکم کر سکے۔ آسٹریائی انٹیلیجنس کے مطابق ایران کا جوہری ہتھیار بنانے کا منصوبہ اب ایک اگلے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور اس کے پاس ایسی بیلسٹک میزائلوں کی ذخیرہ گاہ بھی موجود ہے جو جوہری ہتھیاروں کو طویل فاصلے تک لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ یاد رہے کہ آسٹریا نے 2015 میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان جوہری معاہدے کی میزبانی کی تھی، اور یہ معاہدہ ویانا میں طے پایا تھا۔ تاہم اب آسٹریا کی انٹیلی جنس رپورٹ میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ ایران کو مسلح ہونے سے روکنے کی خاطر جو بھی پابندیاں اور معاہدے کیے گئے تھے، وہ سب ناکام ہو چکے ہیں۔ مزید یہ کہ ایران وسیع پیمانے پر ہتھیار اور اُن کی ترسیلی ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے ... اور یہ صرف اپنی ضروریات کے لیے نہیں۔ رپورٹ میں ایران کی خطے میں مداخلت کا بھی ذکر ہے کہ بیسویں صدی کی دوسری دہائی سے ایران کا اثر و رسوخ مختلف علاقائی تنازعات میں اسلحے کی فراہمی کے ذریعے نمایاں طور پر بڑھا ہے، جیسا کہ شام اور فلسطین جیسے بحران زدہ علاقوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلحے کی اس فراہمی کی بنیاد پر ایران ایک ایسا "محورِ مزاحمت" تشکیل دے رہا ہے جس کا مقصد "مرکزی دشمن"، یعنی اسرائیل، کو شمال، مغرب اور جنوب سے تزویراتی اتحادیوں کے ذریعے گھیرنا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس تناظر میں مسلکی یا نظریاتی اختلافات ثانوی حیثیت رکھتے ہیں، اصل اہمیت مشترکہ دشمن کو حاصل ہے، جو کہ سب سے پہلے اسرائیل ہے، اس کے بعد امریکا، اور پھر پوری مغربی دنیا۔ ایران طویل عرصے سے اسرائیل مخالف اتحادیوں، جیسے حماس، حزب اللہ اور شامی ملیشیاؤں کو اسلحہ فراہم کرتا رہا ہے۔ اور جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا، تو ایران نے روس کو بھی اسلحہ فراہم کرنا شروع کر دیا، بالخصوص ڈرون طیارے۔ روسی فوجی کارروائی کے آغاز سے ایران اور روس کے تعلقات مزید مضبوط ہوئے ہیں۔ جہاں ماضی میں ایران روسی ہتھیاروں کا خریدار ہوتا تھا، اب وہ خود روس کو اقتصادی اور عسکری سطح پر جنگ میں مدد دے رہا ہے۔ آسٹریائی رپورٹ کے مطابق ایران نے گزشتہ چار دہائیوں میں پابندیوں سے بچنے کے لیے ایک پیچیدہ نیٹ ورک تشکیل دیا ہے، جس سے اب روس بھی فائدہ اٹھا رہا ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس ایجنسیاں ان نیٹ ورکس کے ذریعے جوہری ہتھیاروں، وسیع تباہی کے ہتھیاروں اور ان سے متعلقہ مواد و ٹیکنالوجی حاصل کرنے کے لیے جعلی کمپنیوں اور اندرون و بیرون ملک نیٹ ورکس کا استعمال کرتی ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کی تجارتی سلطنت کو بھی اسی مقصد کے لیے بروئے کار لایا جاتا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایرانی انٹیلی جنس شام میں اسرائیلی اور امریکی ڈرون طیارے قبضے میں لے کر اُنھیں کھولتی اور اُن کی نقل تیار کرتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بعض حساس پرزے غیر پابندی زدہ مغربی ممالک میں قائم جعلی کمپنیوں کے ذریعے حاصل کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح یورپی تحقیقی اداروں اور کمپنیوں کی ٹیکنالوجی بھی ایرانی عسکری صنعت کے لیے نہایت اہم قرار دی گئی ہے۔ ایرانی انٹیلی جنس ادارے جوہری ہتھیاروں اور ان کے ترسیلی نظام کی تیاری کے لیے دہرے استعمال کی حامل اشیاء، دیگر مواد اور ماہرین کی معلومات کے حصول کے درپے رہتے ہیں۔ اکتوبر 2022 میں یوکرینی فوج نے اعلان کیا تھا کہ اُنھوں نے ایرانی ساختہ "مہاجر-6" ڈرون گرا کر اس کا ملبہ بحیرہ اسود سے بازیاب کیا، تو یہ انکشاف ہوا کہ اس کا انجن آسٹریا کی معروف کمپنی "روٹاکس" نے تیار کیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی اسلحہ پابندیوں کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس سے پہلے اکتوبر 2020 میں، امریکا نے ایران پر نئی پابندیاں عائد کی تھیں، جن میں ایرانی تیل کا شعبہ، پاسداران انقلاب اور ایرانی آئل ٹینکر کمپنی شامل تھیں، جس کے بعد "روٹاکس" کمپنی نے اعلان کیا کہ اُس نے ایرانی پاسداران کو انجنوں کی فروخت بند کر دی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایران کے جوہری پھیلاؤ کے عزائم کے تحت آسٹریا کی دھات سازی اور الیکٹریکل انجینئرنگ کی کمپنیوں میں کام کے لیے ایرانیوں کی جانب سے درخواستوں میں اضافہ دیکھا گیا ہے، تاکہ وہ حساس معلومات حاصل کر سکیں۔ اسی بنا پر بعض یورپی ممالک نے خلا، جوہری طبیعیات اور دیگر دفاعی صنعتوں سے متعلق مضامین کی تعلیم میں ایرانی طلبہ پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ آسٹریائی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایران کی جاسوسی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے "آسٹریا میں اقتصادی اور سائنسی ادارے غیر ملکی عناصر کا خاص ہدف بنے رہے، جو اقتصادی اور علمی معلومات کے حصول کے لیے سرگرم ہیں۔" اور اس میں خاص طور پر روسی، چینی، ایرانی، شمالی کوریائی اور ترک انٹیلی جنس اداروں کو سب سے زیادہ فعال قرار دیا گیا ہے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments