Activities

شدت پسندوں کے ذریعہ قرآنی آیات کی غلط تشریحکو سمجھنا

شدت پسندوں کے ذریعہ قرآنی آیات کی غلط تشریحکو سمجھنا

شدت پسندوں کے ذریعہ قرآنی آیات کی غلط تشریحکو سمجھنا نیو اورلینز پر شمس الدین جبار کا حملہ کے پیچھے کے مقصدکو مد نظر رکھتے ہوئے جو افسوسناک طور پرانتہا پسندی اور ان کے مذہبی کتابوں کو غلط استعمال کے خطرہ کی طرف اشارہ کرتا ہے ۔یہ خاص کر کے قرآن کی آیت 9:111 کی طرف اشارہ ہے جو اسے بیان کیا جا تا ہے جیسا کہ یہ تشدد کی طرف ایک دعوت ہے۔ حالات اس طرح کی تشریحات صرف غلط ہی نہیں ہے بلکہ یہ بہت ہی خطرناک نقصان دہ ہے۔ اس کو سمجھنا ضروری ہے کیونکہ اس کا سیاق و سباق اور ان اصولوی کی گہری طرح سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ جو قرآن میں ہے اور یہ سالمیت، انصاف اور محبت کی وکالت کرتا ہے۔ قران صرف قوانین کی کتاب نہیں ہے یہ وحی ہے جو 23 سالوں میں نازل ہوئی ہے۔محمد ﷺ شروعاتی دور میں مسلم قوم کی زندگی کے خاص حالات و مشکلات کو حل کرنے کے لیے نازل ہوتی رہی۔ سورہ التوبہ کی ایک آیت ہے اور یہ اس دور میں نازل ہوئی جب نئے مسلمان قوم اپنے آپ کی حفاظت کر رہی تھی۔عرب میں دشمن قبائل کے حملے اور ظلم و ستم کے خلاف ہے۔ یہ آیت اکثر اس کے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کی جاتی ہے، جو اللہ اور ایمان والو۲ں کے عہد کے بارے میں بتاتی ہے اور ان کی چاہت یہ تھی کہ وہ اپنے ایمان کی حفاظت کرے یہاں تک کہ اپنی زندگی کو قربانی دے کر یہ منصفانہ مقصد کےلئے قربانی کے اخلاقیات کو ظاہر کرتی ہے ، نہ کہ یہ واضح طور پر تشدد کی دعوت دیتی ہے۔ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اوراس کی خصوصی سیاق و سباق کے طریقے کو جاننا بھی ضروری ہے۔ اسلامی مفسرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ پر آیت ایک خاص حالت کو حل کرنے کے لیے نازل ہوی تھی۔ اسے قرآن کے عظیم بیانہ کے اندر تشریح و تفسیر کرنی کی ضرورت ہے ۔آیت 9:111 مثال کے طور پر،حفاظتی جنگی کے سیاق و سباقسے الگ نہیں کی جا سکتی ہے۔ اس وقت جب مسلم قوم کی زندگی خطرے میں ہو ۔مزید براں اسلامی علماءمسلسل ان جیسے آیت کا غلط استعمال کی جاتی ہے۔ وہ بحث کرتے ہیں - جہاد کی صرف دینی جنگ کی طورپرغلط تشریح کی جاتی ہے، بنیادی طور پر جہاد ذاتی ترقی معاشرتی انصاف کے لیے ایک کوشش ہے۔ہتھیاروں کا استعمال جیسا کہ اس کا اسلام میں اجازت ہے۔ بہت سختی سے اس کی ہدایت دی گگئی ہے اور خاص مواقع میں اس کی اجازت دی گئی ہے،تاکہ ظلم و ستم کے خلاف اپنی حفاظت کی جاسکے۔انتہا پسند جماعتیں ان جیسے آیات کواٹھاتے ہیں جیسا کہ 9:111 تشدد کے اعمال کو جائز قرار دیا جاسکے۔خصوصی تاریخی سیاق و سباق سے ان آیات کو دور نہیں کیا جا سکتاہے۔ وہ اپنے ایجنڈے کو ثابت کرنے کےلئے معنے کو بدل دیتے ہیں۔ یہ جماعتجہالت کا غلط استعمال کرتے ہیں اور غیر محفوظ لوگوں کومنا لیتے یہ یقین دلاتے ہوئے کہ ان کے نظریات الہیٰ فرامین کے مطابق ہے۔جان بوجھ کر غلط بیان دینا جن کی بنیاد اسلامی اصول اور اخلاقیات میں نہیں ہے۔ قرآن مجید واضح طور پر تجاوز سے روکتا ہے اور بات پر زور دیتا ہے کہ کسی معصوم کی زندگی کا قتل کرنا گیا کہ پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے ۔(قرآن 5:32 )قرآن مجید کی دینی پڑھائی ، سالمیت انصاف اور دوسروں کے ساتھ مل جل کر رہنے کے لیے واضح طور پر زور دیتی ہے۔ مثال کے طور پر: اے ایمان والوںوالوں اللہ کےلئے گواہی دیتے ہوئے انصاف پر خوب قائم ہوجاﺅ چاہے تمہارے اپنے یا والدین یا رشتے داروں کے خلاف ہی ( گواہی ) ہو۔ (قرآن 4:135) اور اگر وہ صلح کی طرف مائل ہو جاﺅ اور اللہ پر بھروسہ رکھو ۔ قرآن ( 8:61 )بے شک اللہ انصا ف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے ... قرآن (16:90) یہ اصول اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہیں جو کسی بھی مقصد کے حصول کے صور اسلامی تعلیمات لیے تشدد کو مسترد کرتے ہیں۔ قرآنی آیات کے افسوسناک غلط استعمال انتہا پسندی سوگوں کے ذریعے یہ صرف تشدد کا اضافہ نہیں کرتا ہے بلکہ اسلام کا صحیح پیغام کو بھی خراب کر دیتا ہے۔ آیات 9:111 ان جیسے قرآن کے تمام آیات ان کے خصوصی و تاریخی سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے۔ جبکہ اس کا صحیح تشریح کر کے یہاخلاقی اور قانو نی حدود کے اندر انصاف و قربانی کے اصول کوظاہر کرتا ہے نہ کہ غیر معقول تشدد کو ۔ سیاق و سباق کی تفہیم کی ترقی دے کر اور حقیقی علمائکے ساتھ شامل ہوکر انتہا پسندانہ بیان کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔اور قرآن کے صحیح پیغام کو فروغ دے سکتے ہیں۔صحیح پیغامبہت اہم ہے کیونکہ یہ لوگوں کو تعلیم دیتا ہے قرآنی آیات خصوصی اور تاریخی سیاق و سباق کے بارے میں۔ اور یہ تعلیم بہت طاقتور ہتھیار ہے غلط استعمال اور ان کےغلط دلچسپی کی کوشش کے خلاف۔ اس طرح کی دلچسپی اور کوششیں مسلم کے خلاف پوری دنیا میں جاری ہے ۔یہ بھی انتہا ہی ضروری ہے کہ فعال شمولیت ہو حقیقی اسلامی علماو¿ں کے ساتھ جو مذہب کی صحیح تشریح فرا ہم سر سکتے ہوں یہ بھی بہت اہمیت کا حامل ہے جو قرآن کی اخلاقی تعلیمات کو ظاہر کرتا ہے اور یہ انصاف محبت، انسانی عزت کی عالمی اقدار کے ساتھ مطابقترکھتے ہیں۔یہ صرف تبھی ممکن ہوگا جب ایک معاشرتی و تعلیمی نظام کو بنانا جو کمزور اور نازک اور کمزور سمجھ کر حل کر سکتے ہیں، ، جیسے انتہا پسندی کے بھرتی کرنے والے لوگ غلط استعمال کرتے ہیں۔ محمد سلیم،پی ایچ ڈی،جامعہ ملیہ اسلامیہ

Source: Social Media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments