تقریباً چار دہائی گزر جانے کے بعد جب امریکی خلائی جہاز "وویجر-2" نے 1986 میں سیارہ یورینس کے قریب سے پرواز کی تھی، ایسا لگتا ہے کہ اس برفانی سیارے سے متعلق ایک پراسرار معمہ حل کے قریب ہے۔ یہ بات سائنسی ویب سائٹ " کی رپورٹ میں بتائی گئی۔ نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ممکن ہے وویجر-2 نے سیارے کو "نا مناسب وقت" پر دیکھا ہو، جب ایک نادر شمسی واقعہ پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں سیارے کے گرد موجود ایک برقی بیلٹ میں غیر متوقع توانائی کی سطحیں ریکارڈ ہو گئیں۔ یورینس اور نیپچون نظامِ شمسی کے وہ سیارے ہیں جن کا سب سے کم مطالعہ ہوا ہے۔ ان کے قریب صرف ایک ہی خلائی جہاز، یعنی وویجر-2، پہنچا ہے۔ یہ تاریخی پرواز شان دار معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بے شمار سوالات بھی پیدا کر گئی، خاص طور پر یورینس کے گرد موجود اعلی توانائی والے برقی بیلٹ کی موجودگی نے حیران کر دیا، کیونکہ یہ توقع سے کہیں زیادہ طاقتور معلوم ہوا۔ امریکی جنوبی مغربی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SwRI) کی ٹیم نے نئی قیاس آرائی پیش کی ہے کہ ممکن ہے وویجر-2 نے سیارے کے پاس اس وقت پیمائش کی ہو جب ایک "ہم گردش شمسی تعامل کا علاقہ" (Co-rotating Interaction Region) وہاں موجود تھا۔ یہ شمسی ہوا میں ایک ساخت ہے جسے زمین کے گرد شدید شعاعی طوفان پیدا کرنے والا سمجھا جاتا ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق ایسا شمسی واقعہ وویجر-2 کی جانب سے ریکارڈ کی گئی اعلی فریکوئنسی والی لہروں کا سبب بن سکتا ہے، جو 1980 کی دہائی میں اچھی طرح سمجھی نہیں جا سکیں۔ سال1986 میں وویجر-2 کی پرواز کے دوران یورینس ایک مدھم اور تقریباً بے خصوصیات سیارہ معلوم ہوا، مگر اس کے گہرے ڈیٹا نے نظامِ شمسی کے اس نامعلوم سیارے کے بارے میں ہمارے فہم کو مسلسل نئے سرے سے تشکیل دیا ہے۔ آج ایسا لگتا ہے کہ ایک "کائناتی اتفاق" وویجر-2 کے اس تاریخی ڈیٹا میں موجود سب سے پراسرار مظاہر میں سے ایک کی وجہ تھا۔ خلائی امور کے ماہر رابرٹ الن، جو تحقیقی ٹیم کے سربراہ ہیں، انھوں نے بتایا کہ سائنسی ترقی اور زمین سے دستیاب جدید ڈیٹا نے وویجر-2 کے ریکارڈ کو دوبارہ تجزیہ کرنے میں مدد دی۔ سال 2019 میں زمین پر ایک مشابہ شمسی واقعہ پیش آیا تھا جس نے ہمارے شعاعی بیلٹ میں الیکٹرانز کی تیز تر حرکت پیدا کی۔ جب محققین نے زمین کے ڈیٹا کا موازنہ وویجر-2 کے ڈیٹا سے کیا، تو نمایاں مشابہتیں سامنے آئیں، جس سے نئی قیاس آرائی کی حمایت ہوئی کہ وویجر-2 کے پرواز کے وقت یورینس اپنی معمول کی حالت میں نہیں تھا۔ اس سلسلے میںGeophysical Research Letters میں شائع معلومات کے مطابق شدید شمسی لہریں وہ توانائی کا راز ہو سکتی ہیں جو وویجر-2 نے یورینس کے گرد ریکارڈ کی تھی۔ یہ لہریں الیکٹرانز کو روشنی کی رفتار کے قریب پہنچا سکتی ہیں۔ اگر یہ بات ثابت ہو جاتی ہے تو پچھلے 40 سالوں میں یورینس کے مقناطیسی ماحول کی ہماری سمجھ کو نئے سرے سے تعبیر کرنے کی ضرورت ہوگی۔ یہ نئی قیاس آرائی نیپچون، یورینس کے ہم شکل سیارے کے مطالعے میں بھی مدد گار ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس پر بھی ممکنہ طور پر ایسے ہی عمل اثر انداز ہوتے ہیں۔ الن نے کہا کہ "یہ نتائج یورینس کے لیے ایک مخصوص مشن بھیجنے کی ضرورت کا مزید سبب ہیں… وقت آ گیا ہے"۔ محققین کے مطابق ابھی بھی بہت سے سوالات جواب طلب ہیں، جیسے یہ لہریں کیسے بنتی ہیں؟ ان کے حالات کیا ہیں؟ اور وویجر-2 کی پرواز کے وقت یہ اتنی شدید کیوں محسوس ہوئیں؟
Source: social media
آج شب چاند عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کا چینی صدر کو طنز بھرا پیغام
افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے: طالبان حکومت
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
گوگل کا اسرائیلی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں ڈالر کا معاہدہ