National

لوک سبھا میں   بھی وقف بل کا جائزہ لینے کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی  کو بھیجا گیا

لوک سبھا میں بھی وقف بل کا جائزہ لینے کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا گیا

نئی دہلی، 08 اگست : لوک سبھا میں جمعرات کو وقف (ترمیمی) بل 2024 کی سخت مخالفت کے بعد، اسے تفصیلی جائزہ کے لیے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی (جے پی سی) کے پاس بھیج دیا گیا۔ قبل ازیں اقلیتی امور کے وزیر کرن رجیجو نے وقف بورڈ کو چلانے والے قانون میں ترمیم کا بل پیش کرنے کی اجازت طلب کی۔ کانگریس سمیت تمام اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کی سخت مخالفت کی اور اسے آئین کی مختلف دفعات کے خلاف اور مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کی کوشش قرار دیا۔ اپوزیشن نے اسپیکر اوم برلا سے ضابطہ 72 کے تحت بل کو پیش کرنے سے قبل بحث کرانے کا مطالبہ کیا جسے اسپیکر نے قبول کرلیا۔ رولنگ پارٹی اور اپوزیشن کے تمام ممبران کی رائے سننے کے بعد مسٹر رجیجو نے کہا کہ اپوزیشن اراکین سیاسی دباؤ کی وجہ سے اس پر احتجاج کر رہے ہیں لیکن سچائی یہ ہے کہ یہ بل سب کے مفاد میں ہے اور اس سے غریبوں کی مدد ہو گی۔ وقف املاک کے ذریعے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وقف بورڈ میں 90 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں اور ان تمام عدم مساوات کو دیکھتے ہوئے یہ بل عوام کو انصاف فراہم کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ نئے بل میں کیس نمٹانے کا وقت چھ ماہ مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل میں کی گئی شقوں سے آئین کے کسی آرٹیکل کی خلاف ورزی نہیں ہوئی اور نہ ہی اس میں کسی کے حقوق چھینے جا رہے ہیں۔ اس میں صدیوں سے حقوق نہ دینے والوں کو حقوق دیے گئے ہیں۔ یہ بل وقف بورڈ میں خواتین کی رکنیت کو لازمی قرار دیتا ہے اور اس میں ہر مسلم کمیونٹی کی خواتین کو شامل کیا جائے گا۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ ان کی حکومت یہ بل پہلی بار نہیں لائی ہے۔ حکومت نے 1995 میں جو وقف بل لایا تھا وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔ بل جس مقصد کے لیے لایا گیا تھا اس میں مکمل طور پر ناکامی ملی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نیا بل بہت غوروفکر کے بعد لایا گیا ہے اور سب کو اس بل کی حمایت کرنی چاہیے کیونکہ اس وقت کروڑوں لوگوں کو انصاف نہیں مل رہا۔ اس بل کی مخالفت کرنے سے پہلے کروڑوں غریب مسلمانوں کے بارے میں سوچیں اور پھر مخالفت کریں۔ اس مسئلہ پر کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں اور وقف ایکویٹی رپورٹ پیش کی گئی۔ تمام وقف املاک کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے ٹریبونل ہونا چاہیے اور آڈٹ اور اکاؤنٹس کا نظام بہتر ہونا چاہیے۔

Source: uni news service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments