Activities

قرطاس و قلم، جگتدل کی تعزیت نشست برائے قیوم بدر

قرطاس و قلم، جگتدل کی تعزیت نشست برائے قیوم بدر

جگتدل پرانی مسجد گلی نمبر 5، بمقام”لطیف منزل“ جناب جاوید لطیفی کی میزبانی میں ادارہ قرطاس و قلم، جگتدل کے زیر اہتمام ایک تعزیتی نشست معروف طنز و مزاح نگار قیوم بدر (مرحوم) کی یاد میں بروز سنیچر بمطابق 8/ جون 2024ءمنعقد کی گئی۔ صدارت حاجی عبدالودود انصاری(سابق پرنسپل) نے کی اور نظامت جناب سمیع الفت نے خوب کی۔مہمانِ خصوصی جاوید اقبال ابن قیوم بدر رہے۔ مخصوص تعزیتی مجلس کا آغاز مولانا محمد کلام حسین جامعی(خطیب و امام جگتدل پرانی مسجد) نے تلاوتِ قران مجید سے کیا مزید دعائے معفرت بھی کی۔ معروف شاعر و ادیب نسیم اشک نے کہا کہ فنکار کبھی مرتا نہیں وہ اپنی تخلیقات کی وجہ سے زندہ رہتا ہے۔ معروف قلمکار سوز اختر نے کہا کہ قیوم بدر ادب کا نگینہ تھے۔ جانے والے کبھی نہیںآتے۔ جانے والوں کی یاد آتی ہے۔ ڈاکٹر علی حسین شائق نے کہا قیوم بدر اپنے فن میں یکتا تھے۔ بنگال ادب کے ادباءکی فہرست ان کے بغیر نامکمل مانی جائے گی۔ ڈاکٹر شائق نے واضح کیا کہ قیوم بدر نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا تھا۔ نیز اعلان کیا کہ رسالہ ”زنبیلِ ادب“ا اگلا شمارہ قیوم بدر نمبر ہو گا۔ لہذا بلا جھجھک کوئی بھی قلمکار قیوم بدر پر اپنی تخلیقات (منظوم یا منثور) ارسال کر سکتا ہے۔ نوجوان قلم کار نیز کولکاتہ میونسپل کارپوریشن پرائمری اسکول کے اسسٹنٹ ہیڈ ٹیچر سہیل نور نے خراج عقیدت و تعزیت پیش کرتے ہوئے زیر ِ نظر قطعہ بھی پڑھا: موت ہوتی ہے لینے والوں کی ہم زمانے کو صرف دیا کرتے ہیں ہم ہیں فنکار ہم نہیں مرتے ہم کتابوں میں سانس لیا کرتے ہیں جواں سال استاذ و قلمکار آر احمد نے کہا کہ پچھڑے علاقے میں سادگی کے ساتھ رہتے ہوئے بھی قیوم بدر نے علاقے کا نام روشن کیا۔ خوش گلو اور خوب رو شاعر احمد خورشید نے چند اشعار اسی ضمن میں پیش کیا اور کہا کہ قیوم بدر اپنی فنی خدمات و تخلیقات کے بِنا پر ہمیشہ یاد کیے جاتے رہیں گے۔ صدرِ ادارہ محترم عظیم انصاری نے کہا قیوم بدر صرف میرا ہم جماعت یا ہم عصر ہی نہیں بلکہ دیرینہ دوست بھی تھا۔ اللہ کے کرم سے میں نے اس کی آخری سانس تک اس رشتے کا پاس رکھا اور اس کے گھروالوں کے ساتھ ہنوز جاری ہے۔ لواحقین اور پسماندگانِ قیوم بدر شروع تا حال اس کے معترف بھی ہیں۔ انھوں نے واضح کیا کہ قیوم بدر پر اولین مضمون اگر کسی کا ادبی منظر نامے پر آیا تو خاکسار کا ہی تھا جو سال 2007 میں اخبار مشرق میں شائع ہوا تھا۔ صاف گوئی کے ساتھ یہ بھی کہا کہ اس سادہ لوح طنز ومزاح نگار کو طنز و مزاح نگار کی عالمی فہرست میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ خاکسار علی شاہد دلکش نے کہا کہ کسی شاعر کا ایک شعر یا کبھی کبھی ایک مصرع ہی اس کی مقبولیت کا سبب بن جاتا ہے۔ قیوم بدر کی کتاب کا نام اور ان کے ایک مضمون کا عنوان ''ہم قبرستان سے بول رہے ہیں''، ان کی مقبولیت کی پہچان ہے۔ اس بات کے شواہد کلکتے میں مغربی بنگال اردو اکیڈمی کے زیر انعقاد تقریب میںعلامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کی موجودگی والا ہال کے جم غفیر کے سامعین ہیں کہ جب ایوارڈ کے لیے ان کے نام اعلان کرتے ہیں مجمعے میں”ہم قبرستان سے بول رہے ہیں“ کی آواز بازگشت کی تھی ۔ فرزند ِ قیوم بدر جناب جاوید اقبال نے کہا میری جانکاری میں ابو کے نام پہ چوتھی شام ہے۔ ان کے نام اور کئی شامیں ان کی حیات میں بھی رہی ہوں گی۔ بتاتا چلوں کہ کہ کیسے وہ بستر مرگ پر اپنے تئیں کسی کے تاثرات اور پیغامات کو سن کر یا پڑھ کر اپنے خود کے پیروں کی مدد سے فرش پر کھڑا ہو جاتے تھے۔ انھوں نے منتظمین، شرکاءاور سامعین کا بھی شکریہ بھی ادا کیا۔ جناب جاوید لطیفی نے اخیر میں اچھی اور مختصر گفتگو کے ساتھ اظہارِ تشکرات کیا۔ صدرِ نشست حاجی عبد الودود انصاری نے کہا کہ الحمد اللہ جس طرح سے آج ادبی گفتگو کے ساتھ دینی گفتگو بھی شامل ِ نشست رہی۔ اس سے آج کی مجلس دینی زیادہ اور ادبی کم رہی۔ قوم بدر ایک شریف اور خود دار فن کار تھے۔ انھوں نے ایک ادبی صنف سے اپنے علاقے کی نسبت قائم کی۔ اس صنف کے حوالے سے جب بھی بات ہو گی ان کے نام کے ساتھ علاقے کی نسبت بھی رہے گی۔ آئیے دعا کریں کہ اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے آمین۔شرکاءمیں مولانا محمد کلام حسین جامعی، حاجی عبدالودود انصاری، عظیم انصاری، حاجی علی حسین شائق، سوز اختر، سمیع الفت، احمد خورشید،نسیم اشک، سہیل نور، محمد نسیم، محمد جاوید اقبال انصاری، جاوید اقبال، مہوش جمیل اور رئیس احمد کے اسم گرامی ہیں۔ (علی شاہد دلکش)

Source: Akhbare Mashriq News Service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments