International

کانگریس سے پوچھے بغیر ایران پر حملہ، امریکہ کی منقسم سیاست مزید تقسیم

کانگریس سے پوچھے بغیر ایران پر حملہ، امریکہ کی منقسم سیاست مزید تقسیم

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کانگریس سے مشاورت کے بغیر کیا گیا جس کو جانبداری پر مبنی ایک پرخطر کارروائی قرار دیا جا رہا ہے، خصوصاً ریپبلکنز کے اہم رہنماؤں کو تو آگاہ کر دیا گیا تاہم ڈیموکریٹس کو بہت کم معلومات دی گئیں۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق وائٹ ہاؤس کے ترجمان مائیک جانسن، سینیٹ کے ریپبلکن رہنما جان تھیون اور جی او پی چیئرمین آف سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کو حملے سے قبل مطلع کیا گیا تھا جبکہ ان کے ہم منصبوں کو نہیں۔ ڈیموکریٹ رہنما چک شومر کو حملوں سے قبل وائٹ ہاؤس کی جانب سے جلدی میں سرسری طور پر آگاہ کیا گیا تھا۔ اسی طرح ڈیموکریٹ لیڈر حکیم جیفری کے دفتر کو صدر ٹرمپ کے اعلان سے قبل ایک ’رسمی کال‘ کی گئی۔ ایران پر حملے کے معاملے سے واقفیت رکھنے والے دو عہدیداروں نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’مشن سے قبل کانگریس اور انٹیلی جنس رہنماؤں کے آٹھ افراد پر مشتمل گینگ کو مطلع نہیں کیا گیا۔‘ ڈیموکریٹس سے تعلق رکھنے والے انٹیلی جنس کمیٹی کے اعلیٰ رہنما جم ہائیمز کا کہنا ہے کہ ان کو حملوں کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے معلوم ہوا، جو ان کے نزدیک ’کمیٹی کے رکن کے لیے ایک ناخوشگوار بات تھی۔‘ انہوں نے اتوار کو سی این این سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کو آگاہ نہ کرنا کافی بری بات ہے بلکہ یہ غیرآئینی بھی ہے کہ عوام کا نمائندہ ہونے کی حیثیت سے ہم کو بات نہیں کرنے دی گئی اور وہ بھی ایک ایسے خارجہ پالیسی سے متعلق اقدام پر جو ملک میں طویل عرصے بعد اٹھایا گیا ہے۔‘ یہ کافی غیرمعمولی صورت حال ہے جو صدر اور ان کی پارٹی کے لیے آگے کی سیاست کو پیچیدہ بنا رہی ہے کیونکہ کسی ملک کی جوہری تنصیبات پر حملے کے بعد امریکہ قومی سلامتی سے متعلق ایک غیریقینی دور میں داخل ہو رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اسی ہفتے ٹم کین اور ڈی ورجینیا کی جنگی اختیارات سے متعلق قرارداد پر ووٹنگ کا سامنا ہو گا جو ’امریکی افواج کو ایران کے ساتھ دشمنی کے راستے سے ہٹنے کی ہدایت کرے گی جس کی کانگریس نے اجازت نہیں دی تھی۔‘ اسی طرح امریکی ایوان میں دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے ایک اور قرارداد بھی پیش کی ہے اور ایک ڈیموکریٹ رکن الیگزینڈریا اوکاسیو کارٹیز کا کہنا ہے کہ ’ٹرمپ کے اقدامات واضح طور پر مواخذے کی بنیاد فراہم کرتے ہیں۔‘ دوسری جانب سے ایسے حالات میں ٹرمپ انتظامیہ یہ توقع بھی کر رہی ہے کہ کانگریس صدر کے ’بگ ٹیکس بل‘ کی مد میں قومی سلامتی کے لیے اضافی ساڑھے تین سو ارب ڈالر بھیجے گی، جس کے لیے جلد ہی ووٹنگ ہونے جا رہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق منگل کو سینیٹرز کو ایران کی صورت حال کے حوالے سے بند دروازوں کے پیچھے بریفنگ دی جائے گی۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے اتوار کو کہا کہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے کانگریس کی قیادت کو ’دو طرفہ رسمی کالز‘ کی گئیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ ’حملے سے قبل شمر سے بات کی گئی جبکہ جیفری اس وقت دستیاب نہ ہو سکے تھے، تاہم بعد میں ان کو آگاہ کر دیا گیا تھا۔‘ صدر کو مسلح افواج کا کمانڈر انچیف ہونے کی حیثیت سے مخصوص فوجی کارروائیوں کا حکم دینے کا اختیار حاصل ہے لیکن کسی بھی طویل جنگ کے لیے روایتی طور پر کانگریس سے اجازت درکار ہوتی ہے۔ سینیٹ اور کانگریس نے 11 ستمبر 2001 کے حملے کے بعد عراق، افغانستان اور ان سے باہر کے علاقوں میں کارروائیوں کی اجازت دی تھی۔ ٹم کین کا کہنا ہے کہ ’قوم کا سامنا کریں، کانگریس سے مشاورت ہونی چاہیے تھے۔‘ جیسے ہی ہفتے کے آخری روز ٹرمپ نے کارروائی کا اعلان کیا تو ریپبلکن نے فوری طور پر اس کی حمایت کی، جانسن، تھون اور سینیٹ کی انٹیلی جنس کمیٹی کے چیئرمین اور آرکنساس سے تعلق رکھنے والے ٹوم کوٹن کو بریف کیا گیا۔ تاہم ایسا لگ رہا ہے کہ سیاسی طور پر ایک سائیڈ پر ہی بات کی گئی جس سے ظاہر ہے کہ انہوں نے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کا کریڈٹ اپنی پارٹی ریپبلکن کو دے کر خطرہ بھی مول لیا ہے یہ بات امریکیوں میں مقبول بھی ہو سکتی ہے اور نہیں بھی، تاہم انہوں نے سیاسی سطح پر امریکہ میں تقسیم کو مزید گہرا کر دیا ہے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments