Activities

اس گھر کو آ گ لگ گئی گھر کے چراغ سے

اس گھر کو آ گ لگ گئی گھر کے چراغ سے

زبان و ادب کی ترقی کا راگ الاپنے والے آ پ کو ہر جگہ نظر آ ئیں گے ۔ بہت سے نام نہاد اہل اردو حضرات بھی اس بات کا دعویٰ کرتے نہیں تھکتے ہیں کہ ہم ہی اردو کے محسن ہےں اور جتنی بھلائی وخیر خواہی ان میں ہے شاید ہی کسی میں ہو۔ آ پ کو ایسے بھی حضرات مل جائے گیں جو اردو کی روٹی کھاتے ہیں لیکن فعل و عمل سے ان کی اردو دشمنی جگ ظاہر ہے ۔ شہر کلکتہ ویسے تو اپنی رنگین شاموں اور مٹھائیوں کے لےے ہندوستان بھر میں مشہور ہے لیکن اس کی اپنی ادبی شنا خت کسی بھی اردو مرکز سے کم نہیں ۔ خاص طور پر وحشت کی یہ سر زمین اردو زبان و ادب کی ایک عظیم رواےت رکھتی ہے اور اس رواےت کو تقوےت بخشنے میں کلکتہ کے ادبی حلقوں کے علا وہ تعلیمی اداروں کی خدمات سے چشم پو شی ممکن نہیں ۔ مگر گذشتہ دہائیوں سے شہر کلکتہ کے مشہور تعلیمی ادارے کلکتہ یونیورسیٹی کے شعبہ اردوکے اساتذہ جو اردو دانی کا دم بھرتے نہیں تھکتے ۔ اسی کلکتہ یونیورسیٹی کے شعبہ ¿ اردوکے’ عظیم اساتذہ‘ کی اردو دشمنی اور نئی نسل کے ساتھ ان کا بیہودہ مذاق اس وقت سامنے آ یا جب گذشتہ دنوں کلکتہ کے مو لانا آ زاد کالج کے شعبہ اردو کے پوسٹ گریجویٹ کے فورتھ سمسٹر کارزلٹ سامنے آ یا ۔ امسال مولانا آ زاد کالج کے شعبہ اردو سے ایم اے فورتھ سمسٹرکے ۸۳ بچوں نے امتحان میں شرکت کی ، حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ امتحان کی کاپی کی جانچ کتنی’ سنجیدگی‘ سے کی گئی کہ شریک طلبا و طا لبات میں سے ۹۲ نے کل ۰۴ نمبرات میں سے ۶۱ نمبرات حا صل کیے ۔ رزلٹ سے جہاں شعبہ کے اساتذہ حیران و ششدر ہےںتو دوسری طرف طلبا و طالبات میں غیر یقینی صورت حا ل ہے ۔ انھیں اپنے مارکس پر یقین ہی نہیں ہورہا۔ مارکس کی یکسوئی کو دیکھ کر یہی ظا ہر ہو تا ہے پیپر چانچے بغیر ہی بچوں کو نمبرات بیٹھا دےے گئے ہیں ۔ اگر کلکتہ یو نیور سیٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ کو کسی سے ذا تی دشمنی ہے تو وہ اپنی جگہ، انھیں ذرہ برابر بھی یہ حق نہیں پہنچتا ہے کہ وہ ان طلبا و طالبات کے مستقبل کے ساتھ کسی طر ح کا کھلو اڑ کریں ۔ قارئین کو یہ با ور کرتا چلوں کہ مو لانا آ زاد کالج میںپی۔ جی شعبہ اردوکے کھولے جانے کے لےے بھی اس زمانے کی کمیونسٹ حکومت اور اسی کلکتہ یونیور سیٹی کے اساتذہ نے ایڑی چو ٹی کا زور لگایا تھا کہ مو لانا آ زاد کالج میں پی جی کا شعبہ نہ کھلے بہرحال شعبہ کھلا بھی اور آ ج یہ اردو زبان و ادب کی خدمت میں نہ صرف فعال نظر آ تا ہے بلکہ یہاں کے طلبا و طالبات مختلف جگہوں پہ اپنی خدمات بھی انجام دے رہے ہیں ۔ کہاجاتا ہے جب چیو نٹی کے برے دن آ تے ہیں تو اس کے پر نکل آ تے ہیں مو جودہ کلکتہ یونیور سیٹی کے شعبہ اردو کے ا ساتذہ، ذہنی طور پر اس قدراحساس کمتری اور کم ظرفی کا شکار ہیں کہ انھیں بچوں کے مستقبل سے کو ئی واسطہ نہیں اور مو لانا آ زاد کالج کے طلبا و طالبات کا رزلٹ ان کی اسی بے حسی کا زند ہ ثبوت ہے ۔ ان کی کم ظرفی ہی کا نتےجہ ہے کہ بارہا کو شش کے با وجود مو لانا آ زاد کا لج میں اردو میں ریسرچ کا شعبہ آ ج تک نہ کھل سکا حالانکہ اس کی کوشش شعبہ اردو مو لانا ا ٓ زاد کالج کی طرف سے بدستور جا ری ہے مگر کلکتہ یونیور سیٹی کے شعبہ اردو کے ارباب اختےار یہ ہر گز نہیں چاہتے کہ مو لانا آزاد کالج کے اساتذة پی ایچ ڈی کر وائیں تا کہ ان کی اپنی مو نو پو لی قا ئم رہے مزید انھوں نے تفریق کا جو جال بچھا رکھا ہے اورشعبہ کو جس طرح اپنی اپنی ڈھائی اینٹ کی مسجد بنا رکھی ہے اس کا قلع قمع ہو۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام اور با لخصوص اردو داں طبقہ بیدا ر ہو اور اس نا انصافی کے خلاف سراپا احتجاج بن کر اپنا حق حا صل کرے ۔ کیونکہ جب ما ضی میں کلکتہ یونیور سیٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ کے ذریعہ ایسی ہی نہ انصا فی کی جارہی تھی تو وہاں اس وقت کے ایک پروفیسر صا حب بھی بچوں کے عتاب کا شکار ہو نے سے نہ بچ سکے تھے اور اگر اب ایسے حا لات ہیں اور مو جودہ ان اساتذہ کے خلاف کو ئی کاروائی نہ گئی تو یہ اسی طر ح بچوں کے مستقبل کے ساتھ کھیلتے رہے گے ایسے میں اردو کی یہ نئی نسل اسی طرح نا انصا فی شکار ہو تی رہی تو یقینا اردو کا مستقبل تاریک ہو جائے گا ۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہو ئی ! (محمد شکیل )

Source: Mashriq News service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

1 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments