اسرائیل کے فلسطینیوں کو غزہ سے جبری طور پر نکالنے اور غزہ کی ناکہ بندی کو جاری رکھتے ہوئے امدادی اداروں کو بے دخل کر کے امداد کی تقسیم اسرائیلی فوج کے سپرد کرنے کی مذمت مغربی دنیا میں بڑھتی جا رہی ہے۔ ناروے اور آئس لینڈ کے وزرائے خارجہ نے اس سلسلے میں مشترکہ بیان میں اسرائیل کو خبر دار کیا ہے 'یہ منصوبہ جبری نقل مکانی کا منصوبہ سمجھا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں تشدد مزید بڑھے گا اور فلسطینی ریاست کے لیے کوششیں کمزور ہو جائیں گی۔ ' ناروے اور آئس لینڈ دونوں یورپی ملک ان یورپی ممالک کا اس موقف میں حصہ ہیں جنہوں نے جمعرات کے روز غزہ میں اسرائیلی فوجی کارروائیوں کو بڑھانے کی مذمت کی ہے۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ وہ حماس کو غزہ سے نکالنے کے لیے غزہ میں جنگ مزید تیز کر رہا ہے۔ یاد رہے اب تک غزہ میں اسرائیلی فوج 52 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر چکی ہے۔ ان قتل کیے گئے فلسطینیوں میں دو تہائی تعداد فلسطینی بچوں اور عورتوں کی ہے۔ اس کے باوجود اسرائیل اس یکطرفہ جنگی عمل کو روکنے کو تیار نہیں بلکہ مزید بڑھاوا دینے کی کھلے عام دھمکیاں دے رہا ہے اور اقدامات کر رہا ہے۔ اسی ہفتے اسرائیل کی سلامتی کابینہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اسرائیلی فوج زیر محاصرہ غزہ میں خوراک اور امداد کی تقسیم بھی اپنے ہاتھوں میں لے لے گی۔ یاد رہے 2 مارچ سے غزہ کی اسرائیلی فوج نے بد ترین اور طویل تر غذائی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ سوا دو ماہ سے اسرائیلی فوج نے غزہ میں خوراک کی ترسیل روک رکھی ہے۔ پانی بجلی ، ایندھن کے علاوہ ادویات تک غزہ میں بھیجنے کی اجازت نہیں ہے۔ یورپ کے مذکورہ ملکوں میں سے ناروے کے وزیر خارجہ ایسپین بارتھ ایڈی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ 'ہمیں جب سے معلوم ہوا کہ اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ نے اس نوعیت کے فیصلے کیے ہیں کہ غزہ میں جنگی کارروائی تیز کی جائے۔ ہمیں یہ سن کر بہت دکھ ہوا ہے کہ جنگی کارروائیاں تیز تر کی جارہی ہیں اور ناکہ بندی مزید سخت کر کے خوراک و امداد کی تقسیم بھی اسرائیلی فوج اپنے ہاتھ میں لے رہی ہے۔ ' انہوں نے کہا اگر ایسا کیا گیا تو یہ فلسطینیوں کی پہلے مرحلے پر شمال سے جنوبی غزہ کی طرف نقل مکانی ہو گی اور بعد ازاں غزہ اور رفح سے باہر دھکیل دیا جائے گا۔ یہ سب جبری نقل مکانی کے مترادف ہو گا۔ ناویجن وزیر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا ' ایسی کوئی بھی کارروائی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہو گی اور فلسطینی ریاست کے قیام کی امید کو ختم کر دینے والی بات ہوگی۔' آئس لینڈ پہلی یورپی قوم ہے جس نے فلسطینی ریاست کو سب یورپی اقوام سے پہلے 2011 میں تسلیم کر لیا تھا۔ آئس لینڈ کے وزیر خارجہ نے کہا اسرائیل کو فلسطینی شہریوں کو لازماً انسانی بنیادوں پرامداد کی فراہمی ہونے دینی چاہیے۔ آئس لینڈ کے وزیر خارجہ تھورگرڈر کارٹن نے کہا یہ فوری ضروری ہے کہ اسرائیل جنگ بندی کو بحال کرے اور غیر مشروط طور پر قیدی رہا کر دیے جائیں۔ انہوں نے بھی ناروے کے وزیر خارجہ کے ساتھ مشترکہ طور پر انٹرویو دیا ہے۔ ادھر امریکہ اور اسرائیل نے غزہ میں جنگ کے بعد کی انتظامیہ کے بارے میں غور کیا ہے۔ ' روئٹرز' کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے یہ امکانی طور پر عراقی ماڈل سے ملتی جلتی انتظامی شکل ہو گی۔ جیسا کہ عراق میں امریکہ نے 2003 میں اپنایا تھا۔ ناروے کے وزیر خارجہ نے کہا ' غزہ کی اگلی انتظامیہ حماس کی نہیں مگر فلسطینیوں کی ضرور ہونی چاہیے۔ جو غزہ اور مغربی کنارے دونوں کے انصرام کو دیکھ رہی ہو۔ ان کا کہنا تھا 'عراقی حکومت کا یہ ماڈل دنیا بھر میں تسلیم شدہ ماڈل نہیں تھا۔ نہ ہی عراقی ماڈل کامیاب رہا ہے۔ '
Source: social media
کیتھولک مسیحیوں کے نئے روحانی پیشوا امریکی صدر کے ناقد
گوگل میپس نے "فارسی" کی بجائے "الخلیج العربی" کا نام اپنا لیا
غزہ سے فلسطینیوں کے جبری انخلا کا اسرائیلی منصوبہ غیر قانونی ہوگا: ناروے، آئس لینڈ
ایران سے تیل کیوں لیا، امریکہ نے چینی ریفائنری پر پابندیاں لگا دیں
پاکستان اور انڈیا کے درمیان تنازع ہمارا مسئلہ نہیں: امریکی نائب صدر
پاک فوج کے سربراہ عاصم منیر کو حراست میں لے لیا گیا، ہنگامہ برپا
خلیج فارس کا نام تبدیل کر دیں گے، ٹرمپ نے اعلان کردیا
ہم نے جو کچھ حوثیوں کے ساتھ کیا وہ ایران میں بھی کریں گے : اسرائیلی وزیر دفاع
اسرائیلی افواج نے مقبوضہ مشرقی یروشلم میں اقوامِ متحدہ کے سکول بند کر دیئے
غزہ پر اسرائیلی حملے میں کم از کم پانچ ہلاک: امدادی کارکنان