International

غزہ سے اسرائیلی انخلا کے بعد حماس کے خلاف لڑیں گے : یاسر ابو شباب کے جاں نشیں کا اعلان

غزہ سے اسرائیلی انخلا کے بعد حماس کے خلاف لڑیں گے : یاسر ابو شباب کے جاں نشیں کا اعلان

غزہ کی پٹی کے جنوب میں پاپولر فورسز ’’القوات الشعبیہ‘‘ نامی ملیشیا کے کمانڈر یاسر ابو شباب کی ہلاکت کے بعد اب جاں نشیں کے طور پر غسان الدہینی کا نام نمایاں طور پر سامنے آیا ہے۔ الدہینی خود بھی رفح میں ان جھڑپوں میں زخمی ہوا تھا جن کے نتیجے میں ابو شباب مارا گیا۔ اسرائیلی فوجی ریڈیو کے مطابق معمولی زخم آنے کے بعد اسے علاج کے لیے عسقلان کے برزیلائی ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ تاہم وہ دو روز قبل ابو شباب کے جنازے میں شریک دکھائی دیا جبکہ ’’القوات الشعبیہ‘‘ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے ایک وڈیو بھی جاری کی جس میں الدہینی رفح میں متعدد مسلح افراد کے جھرمٹ میں گھومتا نظر آ رہا ہے۔ غسان الدہینی ایک سابق فلسطینی سیکیورٹی افسر ہے اور ’’القوات الشعبیہ‘‘ کی قیادت کے امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس نے جمعے کی شب اسرائیلی ٹی وی "چینل 12" کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’’اگر اسرائیلی فوج غزہ سے نکل گئی تو میری جماعت حماس تنظیم کے خلاف اس وقت تک لڑے گی جب تک اسے مکمل طور پر ختم نہ کر دے‘‘۔ الدہینی نے مزید کہا کہ وہ ابو شباب کے راستے پر چلنے کا عزم رکھتا ہے اور ’’ہم اپنی باقی ماندہ طاقت کے آخری حصے تک چھوٹے بڑے تمام شدت پسندوں کے خلاف لڑتے رہیں گے، خواہ وہ کوئی بھی ہوں۔ آج حماس تنظیم اپنا اصل چہرہ دیکھے گی، جو دنیا کو بہت پہلے دیکھ لینا چاہیے تھا‘‘۔ اس کے مطابق حماس تنظیم اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ اب وہ غزہ کی پٹی میں کسی کا حوصلہ پست کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ واضح رہے کہ ابو شباب مشرقی رفح میں بھڑکنے والے ایک تنازع کے دوران مارا گیا تھا، جب جھڑپ کو روکنے کے دوران اسے گولی لگی۔ گذشتہ بدھ کو رفح نے جنگ بندی کے دوران بعض بد ترین پرتشدد واقعات دیکھے۔ مقامی رہائشیوں نے بتایا کہ 3 دسمبر 2025 کو اس علاقے میں مسلح جھڑپیں ہوئیں۔ ابو شباب کی یہ مسلح جماعت مشرقی رفح کے اُن علاقوں میں سرگرم ہے جو اسرائیلی فورسز کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ سرگرمی امریکہ کے زیرِ سرپرستی 10 اکتوبر کو ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد سے جاری ہے۔ جون میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے یہ بات ظاہر کی تھی کہ اسرائیل غزہ کے کچھ قبائل کی مدد کر رہا ہے، جن میں ابو شباب کا گروہ بھی شامل ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ ’’یہ اقدام مفید ثابت ہوا اور اس سے اسرائیلی فوجیوں کی جانیں بچیں‘‘۔ تاہم کچھ اسرائیلی ماہرین اور سیاست دانوں نے اس پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ ایسی گروہ بندیاں حماس تنظیم کا حقیقی متبادل نہیں بن سکتیں، جو 2007 سے غزہ کی پٹی پر حکمرانی کرتی رہی ہے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments