International

غزہ میں بےیقینی، اسرائیلی فوج نے ریزرو فوجیوں کو پھر بلا لیا

غزہ میں بےیقینی، اسرائیلی فوج نے ریزرو فوجیوں کو پھر بلا لیا

اسرائیلی فوج نے اپنے ریزرو فوجیوں کو غزہ میں از سر نو جنگ شروع کرنے کے ارادے کے پیش نظر پھر طلب کر لیا ہے۔ اسرائیل جس کے قائدین شروع سے ہی غزہ سے قیدیوں کی رہائی کے بعد جنگ دوبارہ شروع کرنے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں، بظاہر ہفتہ کے روز حماس کی طرف سے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی نہ ہونے کو اپنے دوبارہ حملے کا جواز بتا رہے ہیں۔ اسرائیل کا غزہ پر یہ دوبارہ حملہ جس کا امکان دیکھتے ہوئے اسرائیلی فوج نے ریزرو فوجیوں کو طلب کرنا ضروری خیال کیا ہے اس کی تازہ ترین دھمکی اسرائیلی ویزراعظم نیتن یاہو کے علاوہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی حماس کو دے چکے ہیں۔ واضح رہے اسرائیل کی غزہ میں ساڑھے 15 ماہ تک جاری رہنے والی جنگ اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں 19 جنوری سے رکی ہوئی ہے۔ تاہم حماس کو اسرائیل سے یہ مسلسل شکایت رہی ہے کہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل میں لیت و لعل کر رہا ہے۔ دوبارہ جنگ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے اور غزہ میں فلسطینیوں پر فائرنگ بھی کر چکا ہے۔ علاوہ ازیں جنگ بندی معاہدے کے مطابق امدادی سامان کی ترسیل میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ خیال رہے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کے دوران دوسرے مرحلے کے لیے ہونے والے مذاکرات میں بھی اسرائیل نے اپنے وفد کو شروع میں دوحا جانے سے روک دیا تھا۔ نیتن یاہو نے اپنے وفد کو روکتے ہوئے کہا تھا 'میری ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات ہونے تک دوحا نہ جایا جائے۔' اس پس منظر میں حماس نے 10 فروری کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر عمل نہیں کر رہا ۔ اس لیے 15 فروری کو طے شدہ شیڈول کے مطابق اسرائیلی قیدی رہا نہیں کیے جائیں گے۔ حماس کے اس اعلان کے بعد نین یاہو کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی 'جہنم کے دروازے' کھولنے والی دھمکی دوبارہ دی ہے ۔ اب اسرائیلی فوج نے اپنے ریزرو فوجیوں کو بھی جنگی ضرورت کے پیش نظر طلب کر لیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو دھمکی دیتے ہوئے پیر ہی کے روز کہا تھا 'اگر ہفتہ کی دوپہر تک تمام اسرائیلی قیدیوں کو رہا نہ کیا گیا تو جہنم کا دروازہ پھر کھول دیا جائے گا۔' نیتن یاہو نے منگل کے روز کہا کہ 'اگر حماس نے ڈیڈ لائن کے مطابق قیدی نہ رہا کیے تو اسرائیل دوبارہ سے شدید جنگ شروع کر سکتا ہے۔' خیال رہے غزہ میں نقل مکانی پر مجبور ہوئے لاکھوں فلسطینی کھانے کی اشیاء اور پانی تک کی فراہمی سے محروم ہیں۔ سخت سردی اور بارشوں کے دوران ٹینٹوں کے بغیر زندگی کے انتہائی کٹھن مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ جبکہ امریکہ نے انہیں ایک اور نقل مکانی کے لیے بھی منصوبہ پیش کر دیا ہے۔ جس کے تحت 20 لاکھ کے قریب فلسطینی مصر اور اردن منتقل کیے جائیں گے۔ اسرائیلی حکام اور وزیروں نے امریکہ کی طرف سے جہنم کی آگ کی دھمکی کی تائید کی ہے اور حماس کو دھمکی دی ہے کہ قیدی رہا نہ ہوئے تو جنگ بندی کا معاہد منسوخ کر دیا جائے گا۔ حماس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ معاہدے پر عملدرآمد کے لیے تیار ہے دوسری فریق کو بھی معاہدے پر عمل کرنا ہوگا۔ بصورت دیگر ہفتہ کے روز قیدیوں کی رہائی ممکن نہ ہوگی۔ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے مذاکرات سے جڑے ایک فلسطینی ذریعے کا کہنا ہے کہ 'ثالث ملک اس صورتحال میں مداخلت کر کے جنگ کے ایک نئے خطرے کو روکنے کی کوشش میں ہیں۔ تاکہ ایک بڑے بحران کو روکا جا سکے۔ تاہم ابھی چیزیں واضح نہیں ہیں۔' جب اس بارے میں حماس کے ایک ذمہ دار سے رابطہ کر کے تبصرے کے لیے کہا گیا تو ان کا تفصیلات دیے بغیر کہنا تھا کہ رابطے ہو رہے ہیں۔ واضح رہے غزہ میں اسرائیلی جنگ کا آغاز 7 اکتوبر 2023 کو ہو اتھا۔ اس دوران اسرائیلی فوج نے بمباری و گولہ باری کر کے کم از کم 48100 سے زائد فلسطینیوں کو قتل کیا ہے۔ جن میں زیادہ تر تعداد فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہے۔ 19 جنوری سے فریقین کے درمیان جنگ بندی ہے۔ جنگ بندی کے دوران حماس نے اب تک 16 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا ہے۔ جن میں خواتین اور بوڑھے لوگ شامل ہیں۔ جبکہ 17 اسرائیلی قیدیوں کی رہائی ابھی ہونا باقی ہے۔ جن کے لیے جنگ بندی کا پہلا مرحلہ متعین کیا گیا تھا۔ نیتن یاہو اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کے بعد دوسرے مرحلے کی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا ایک دور ہو گیا ہے۔ جن میں بظاہر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی اور حماس نے اسرائیل پر معاہدے پر عمل نہ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے قیدیوں کی مزید رہائی کو روکنے کا اعلان کیا ہے۔ جنگ بندی معاہدے کے تحت تمام اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیلی فوج کا انخلاء بھی کیا جانا ہے۔ ادھر اسرائیل کے گلی محلوں میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے مسلسل احتجاج کرنے والے عوام ہزاروں کی تعداد میں حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ جنگ بندی معاہدے کو جاری رکھا جائے اور جنگ بندی معاہدے کے نتیجے میں تمام اسرائیلی قیدیوں کو واپس ان کے گھروں میں لایا جائے۔ تاہم اسرائیلی حکومت ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے منصوبے کی روشنی میں پہلے سے بھی زیادہ پراعتماد اور جارحانہ اپروچ کے ساتھ نظر آرہی ہے۔ اسرائیلی قیادت سمجھتی ہے کہ فلسطین کو فلسطینی عوام سے خالی کرانے کا جو ہدف وہ آج تک مکمل نہیں کر سکی امریکہ کے پیش کردہ نئے منصبوے کےتحت ایسا ممکن ہو جائے گا۔ اس لیے ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں موجودگی کو ایک بڑے موقع کےطور پر لینا چاہیے۔ اس وجہ سے اسرائیلی حکومت اور عوم کے درمیان سوچ کا واضح فرق پایا جاتا ہے۔ مصر اور اردن کے علاوہ تمام عرب ممالک بشمول سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر امریکی منصوبے کو مسترد کرتے ہیں۔ عرب لیگ نے بھی فلسطینیوں کے جبری انخلاء کو مسترد کیا ہے اور فلسطینی عوام سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے لیے 1948 کے نکبہ کے بعد ایک اور نکبہ ہوگا۔

Source: social Media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments