International

فرانس : ہر تین مسلمانوں میں سے ایک امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے

فرانس : ہر تین مسلمانوں میں سے ایک امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے

فرانس میں مذہبی امتیاز کے واقعات شدت اختیار کر گئے ہیں۔ مسلمان اس مذہبی امتیاز کا کس طرح نشانہ بنائے جارہے ہیں۔ اس بارے میں تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر تیسرا مسلمان مذہبی امتیاز کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ رپورٹ ملک کے انسانی حقوق سے متعلق محتسب کی طرف سے جمعرات کے روز سامنے لائی گئی ہے۔ رپورٹ ایک سروے پر مبنی ہے۔ جو ہر تیسرے مسلمان کے امتیازی سلوک کی اذیت سے گذرنے کی نشاندہی کرتی ہے۔ کئی شمالی افریقی ملک فرانس کے نوآبادیاتی رہ چکے ہیں۔ اس دور میں ان ملکوں کے مسلمانوں کو ایک اور طرح کی غلامی کا سامنا تھا اب اور طرح کے امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ فرانس میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کا افریقی ممالک سے تعلق ہے۔ جبکہ ایشیا سے تعلق رکھنے والے مسلمان بھی پیرس و دیگر شہروں میں موجود ہیں کہ یہ سب پیرس کی گلیوں کی محبت میں وہاں ہیں۔ واضح رہے فرانس نے امتیازی سلوک کے واقعات کو سامنے آنے سے روکنے لیے ایسے اعداد و شمار جمع کرنے پر پابندی لگا رکھی ہے جن سے کسی فرد کے نسلی پس منظر کی شناخت معلوم ہو۔ اس کے باوجود امتیاز پر مبنی سلوک کے واقعات میں اضافہ ہے۔ سال 2024 کے سروے کے مطابق انسانی حقوق چیف نے بتایا ہے کہ پانچ ہزار فرانسیسی شہریوں کی بنیاد پر سروے کیا گیا۔ ان انٹرویو دینے والوں میں سے سات فیصد نے کہا کہ انہیں گزشتہ پانچ برسوں میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یاد رہے 2016 میں یہ تعداد صرف پانچ فیصد تھی۔ مسلمانوں کے حوالے سے یہ شرح سب سے زیادہ سامنے آئی ہے۔ جو تقریبا 34 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کو صرف ان کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔ جبکہ یہودیت اور بدھ مت سمیت دیگر مذاہب کے 19 فیصد افراد نشانہ بنائے البتہ عیسائیوں میں صرف چار فیصد نشانہ بنائے گئے ہیں۔ دوسری جانب مسلمان خواتین کے لیے یہ امتیازی سلوک کی شرح سب سے زیادہ یعنی 38 فیصد تک چلی گئی ہے۔ سب سے زیادہ ان مسلمان خواتین کو تنگ کیا جاتا ہے جو سکارف کا استعمال کرنا چاہتی ہیں۔ ایسی مسلمان خواتین کو عوامی جگہوں پر امتیازی سلوک برداشت کرنا پڑتا ہے اور پیشہ ورانہ کیریئر میں بھی سخت مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حتیٰ کہ ملازمت ترک کرنا پڑ جاتی ہے۔ فرانس میں سیکولرازم 1905 کے ایک قانون کے تحت نافذ کہا جاتا ہے۔ جو ضمیر کی آزادی کی حفاظت کرنے اور چرچ اور ریاست کو الگ کرنے کی بات کرتا ہے اور ریاست کو ان امور سے غیر جانبدار ظاہر کرتا ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں اس کے ریاستی اسکولوں جیسے کچھ شعبوں میں مسلم ہیڈ اسکارف جیسی ظاہری مذہبی علامتوں پر پابندی لگا کر اپنے سیکولرازم کی تعریف بدل دی گئی ہے۔ فرانس کے ذرائع ابلاغ میں دائیں اور انتہائی دائیں بازو نے 2015 میں پیرس میں ملک کے اب تک کے بدترین انتہا پسندانہ حملوں کے بعد اسے اسلامی تجاوز کا نام دے کر سکارف پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ کے ایک حصے میں کہا گیا ہے کہ سروے میں تقریباً ایک چوتھائی لوگوں نے فرانسیسی سیکولرازم کو غلط سمجھا جس کا مطلب 'عوامی مقامات پر مذہبی علامتوں پر پابندی لگانا ہے۔ یہ سیکولرزم کی غلط تشریح ہے جو فاشزم تک جا سکتی ہے۔' انسانی حقوق کے ادارے سکارف پر پابندی لگانے کے مخالف ہیں۔ ان کے بقول اس طرح کی پابندی لگانے کا مطلب یہ ہے کہ اب بھی عورت کو بتایا جا رہا ہے کہ وہ کیا کیا پہنے۔ یہ اس کی آزادی کے خلاف ہے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments