گذشتہ چند گھنٹوں کے دوران سوشل میڈیا پر شامی شہری جس موضوع پر سب سے زیادہ گفتگو کرتے رہے وہ ’’دمشق فائل‘‘ کے عنوان سے سامنے آنے والی ایک رپورٹ ہے جس میں ایک بار پھر یہ بھیانک حقائق آشکار کرتے ہوئے بتایاگیا ہے کہ سابق حکومت کے دوران بشارالاسد کی جیلوں میں قیدیوں کے ساتھ کیسی سفاکیت برتی جاتی رہی۔ ایک بڑے آرکائیو میں جو بظاہر "سیزرفائل" سے بھی بڑا ہے، سنہ 2015 ءسے لے کر گذشتہ سال دسمبر سنہ 2024 ءمیں سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے تک شام کی ملٹری پولیس کے فوٹوگرافرز نے جیلوں میں ہونے والی اموات کی ستّر ہزار سے زائد تصاویر محفوظ کی تھیں۔ یہ آرکائیو ایک سی ڈی کے ذریعے شمالی جرمن ریڈیو این ڈی آر کے صحافیوں تک پہنچا، پھر وہاں سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس آئی سی آئی جے کے پاس گیا۔ اس میں ہزاروں ایسے شامی شہریوں کی تصاویر شامل ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ انہیں شامی سکیورٹی فورسز نے قتل کیا۔ آرکائیو میں دس ہزار دو سو بارہ افراد کی تصاویر بھی شامل ہیں جو جیلوں میں یا پھر جیلوں سے فوجی ہسپتالوں میں منتقل کیے جانے کے بعد وفات پا گئے۔ یہ ریکارڈ اس سے قبل سنہ 2014ء میں سامنے آنے والی سیزر فائل سے کہیں بڑا ہے اور اس نے اسد کے دور میں قیدیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم ، مجرمانہ سلوک اور انسانی المیے کی گہرائی کو بے نقاب کیا ہے۔ "این ڈی آر" کے مطابق یہ تصاویر بھی ایک سابق کرنل نے لیک کیں جو دمشق میں ملٹری پولیس کے شواہد محفوظ کرنے والے یونٹ کا انچارج تھا۔ اس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ مواد میڈیا ذرائع تک پہنچایا۔ تصاویر سے واضح ہوتا ہے کہ سنہ 2014ء میں سیزر اسکینڈل سامنے آنے اور امریکہ کی طرف سے پابندیاں لگنے کے باوجود اسد حکومت اپنی کارروائیوں سے باز نہ آئی۔ حراست، تشدد اور قتل کا سلسلہ اسی شدت سے جاری رہا ۔حیران کن بات یہ ہے کہ خود حکومت کی سکیورٹی اور پولیس فورس نے ان مظالم کو باقاعدہ دستاویزی شکل میں محفوظ کیا۔ بزرگ، نوعمر اور خواتین بھی شامل تصاویر سے پتا چلتا ہے کہ زیادہ تر ہلاک شدگان مرد تھے، جن میں بعض ضعیف العمر بھی تھے اور کچھ نوعمر دکھائی دیتے تھے، جبکہ چند خواتین بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ بہت سے قیدی لاغر اور ہڈیوں کے ڈھانچے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک تصویر میں سنہ 2017ء میں دم توڑنے والے ایک شیرخوار بچے کو بھی دکھایا گیا ہے جو سبز کمبل میں لپٹا ہوا ہے۔ بتایا گیا کہ وہ بدنام زمانہ "سیکٹر دو سو پینتیس جیل" میں قید ایک خاتون کا بیٹا تھا، یہ وہ حراستی مرکز ہے جسے عسکری انٹیلی جنس چلاتی ہے اور یہ فلسطین برانچ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ شام کے نمایاں انسانی حقوق کے وکیل انور البنی جو خود بھی اسد کی جیلوں میں قید رہے اور اب جرمنی میں قائم شامی مرکز برائے قانونی مطالعات و تحقیقات کے سربراہ ہیں کہتے ہیں کہ اسد حکومت ’’اطمینان کے ساتھ خوفناک حد تک غائب کرنے اور قتل کا سلسلہ جاری رکھتی رہی‘‘۔ ان کے مطابق کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس نظام کا احتساب ہوگا۔ صدر سے لے کر ایک معمولی اہلکار تک سب کو مکمل تحفظ حاصل تھا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ سیزر کے پہلے آرکائیو سے کہیں زیادہ تشدد‘‘ ان نئی تصاویر میں دکھائی دیتا ہے اور شاید سنہ 2014ء کے بعد کچھ مدت تک جبر میں مزید اضافہ ہوا۔ آرکائیو کی سب سے بڑی تعداد سنہ 2015ء سے سنہ 2017ء تک کی ہے، جب سات ہزار سے زائد قیدیوں کی تصاویر لی گئیں۔ یہ وہ عرصہ تھا جب روسی مداخلت کے بعد خانہ جنگی کے دوران تشدد میں اضافہ ہوا تھا۔ گذشتہ روز سے شائع ہونے والی ان تصاویر نے سوشل میڈیا پر کئی شامی شہریوں کو سخت غم و غصے میں مبتلا کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ان خاندانوں کے زخم مزید گہرے کر رہی ہیں جنہیں آج تک اپنے پیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ دوسری جانب شامی وزارت انصاف نے جمعہ کی صبح جاری بیان میں کہا کہ بعض میڈیا اداروں اور آن لائن پلیٹ فارمز کی جانب سے سابق حکومت کے دور میں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بننے والوں کی تصاویر اور دستاویزات کے بے ترتیب نشر و اشاعت سے متاثرین کے حقوق مجروح ہو رہے ہیں اور ان کے لواحقین کے جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ وزارت نے ایسے تمام افراد سے کہا کہ اگر کسی کے پاس اس نوعیت کے دستاویزات موجود ہیں تو انہیں متعلقہ سرکاری اداروں کے حوالے کریں۔
Source: social media
آج شب چاند عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کا چینی صدر کو طنز بھرا پیغام
افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے: طالبان حکومت
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
گوگل کا اسرائیلی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں ڈالر کا معاہدہ