برطانیہ کے ایک سابق سینیئر برطانوی فوجی اہلکار نے کہا ہے کہ افغانستان میں سپیشل فورسز کے اہلکاروں نے جنگی جرائم کا ارتکاب کیا اور چین آف کمانڈ کو بھی اس کے بارے میں معلوم تھا مگر اس کے باوجود کچھ نہیں کیا گیا۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سابق فوجی اہلکار نے یہ بیان اس انکوائری ٹیم کے سامنے دیا ہے جس نے افغانستان میں فوجیوں کی جانب سے مشکوک طور پر 54 افراد کی ہلاکت کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔ اہلکار کا کہنا تھا کہ سپیشل فورسز کے اہلکار مشتبہ افراد کو بغیر کسی تحقیق کے موت کے گھاٹ اتارتے نظر آئے۔ برطانوی وزارت دفاع کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں 2010 کے وسط سے 2013 کے وسط تک رات کے وقت مارے گئے چھاپوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ اس وقت برطانوی فوج اس اتحاد کا حصہ تھی جس کی قیادت امریکہ کر رہا تھا۔ اس سے قبل بھی ملٹری پولیس کئی ایسے الزامات کی طرف اشارہ کر چکی ہے مگر وزارت دفاع کا کہنا ہے اس بارے میں کی جانے والی تحقیقات میں زیادہ ثبوت نہیں ملے۔ اس انکوائری کا مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ کیا ماورائے عدالت قتلوں کے بارے میں دی گئی معلومات درست تھیں یا نہیں، کیا تحقیقات شفاف تھیں اور کیا غیرقانونی طور پر کی گئی ہلاکتوں کو چھپانا گیا۔ تحقیقات کی سربراہی کرنے والے سینیئر چارلس ہیڈن کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ضروری ہے کہ کس نے توڑا اور جس نے بھی ایسا کیا ہے اس کو متعلقہ حکام کے پاس بھیجا جائے جبکہ جنہوں نے کچھ نہیں کیا ان پر سے خدشات کے بادل چھٹ جائیں۔ انہوں نے اس سے قبل افغانستان میں خدمات انجام دینے والے فوجی اہلکاروں کا موقف بھی سنا تھا جو کہ خفیہ طور پر دیے گئے تھے تاہم ان کو پیر کے روز جاری کر دیا گیا تھا۔ ایک فوجی افسر جن کی شناخت این 1466 کے کوڈ سے ظاہر کی گئی ہے اور وہ افغانستان میں سپیشل فورسز کے اسسٹنٹ چیف آف سٹاف تھے، نے انکشاف کیا کہ کس طرح انہیں 2011 میں حراست کے دوران مارے جانے والے افراد کی تعداد پر شبہ ہوا تھا۔ سرکاری رپورٹس کی جانچ پڑتال کے بعد انہوں نے کہا کہ ایکشن کے دوران مارے گئے افراد کی تعداد برآمد کیے گئے ہتھیاروں کی تعداد سے زیادہ تھی اور یہ بات کہ پکڑے جانے کے بعد انہوں نے بار بار ہتھیار یا ہینڈ گرینیڈز اٹھانے کی کوشش کی، قابل اعتبار معلوم نہیں ہوتی۔ انہوں نے انکوائری کی سربراہی کرنے والے اولیور گلیسگو کو بتایا کہ ’میں واضح کروں گا کہ ہم جنگی جرائم کے بارے میں بات کر رہے ہیں، ہم حراست میں لیے گئے ان افراد کے بارے میں بات کر رہے ہیں جن کو خاص مقام پر لے جا کر مارا گیا۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے یہ معاملہ سپیشل فورسز کے ڈائریکٹر کے ساتھ اٹھایا تھا مگر انہوں نے ایسی مجرمانہ کارروائیوں پر غور کرنے کے بجائے صرف آپریشنل حکمت عملی پر نظرثانی کا حکم دیا تھا۔
Source: social media
آج شب چاند عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کا چینی صدر کو طنز بھرا پیغام
افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے: طالبان حکومت
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
سلامتی کونسل میں صدر ٹرمپ کے غزہ منصوبے کی حمایت میں قرارداد منظور
گوگل کا اسرائیلی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں ڈالر کا معاہدہ