International

اب فیکٹریاں اور فارم ہاؤسز نشانے پر، تارکین کی امریکہ بدری کے لیے 170 ارب ڈالر مختص

اب فیکٹریاں اور فارم ہاؤسز نشانے پر، تارکین کی امریکہ بدری کے لیے 170 ارب ڈالر مختص

امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2026 میں غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف کریک ڈاؤن میں مزید شدت لانے کی تیاریوں نے امریکی سیاست میں نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کی اتوار کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک ایسے وقت میں جب اگلے برس ہونے والے وسط مدتی انتخابات قریب ہیں اور عوامی سطح پر اس پالیسی کے خلاف شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔ اس صورتحال میں ٹرمپ انتظامیہ نے اربوں ڈالرز کے نئے فنڈز کے ساتھ اس مہم کو وسعت دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کے نئے منصوبوں میں کام کی جگہوں اور کاروباری مراکز پر چھاپوں کا سلسلہ تیز کرنا بھی شامل ہے۔ رواں برس وفاقی حکام نے امریکہ کے بڑے شہروں میں پہلے ہی بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں جہاں رہائشی علاقوں میں چھاپوں کے دوران وفاقی ایجنٹوں اور مقامی آبادی کے درمیان تصادم کے واقعات بھی پیش آئے۔ اگرچہ اب تک انتظامیہ نے ان فارمز اور فیکٹریوں پر چھاپے مارنے سے گریز کیا ہے جو امریکی معیشت کے لیے اہم ہیں لیکن وہاں بڑی تعداد میں غیرقانونی تارکینِ وطن کام کرتے ہیں مگر اب یہ حکمتِ عملی بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ کانگریس کی جانب سے جولائی میں منظور کردہ ایک بڑے پیکج کے تحت امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) اور بارڈر پیٹرول کو ستمبر 2029 تک 170 ارب ڈالرز کے اضافی فنڈز فراہم کیے جائیں گے۔ یہ ان اداروں کے موجودہ 19 ارب ڈالرز کے سالانہ بجٹ کے مقابلے میں ایک غیرمعمولی اضافہ ہے۔ انتظامی حکام کا کہنا ہے کہ ان فنڈز کی مدد سے ہزاروں نئے ایجنٹ بھرتی کیے جائیں گے، نئے حراستی مراکز کھولے جائیں گے اور مقامی جیلوں سے تارکینِ وطن کی گرفتاریوں کے عمل کو تیز کیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ غیرقانونی طور پر مقیم افراد کا سراغ لگانے کے لیے نجی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کا بھی منصوبہ ہے۔ یہ توسیعی منصوبہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب سیاسی محاذ پر ٹرمپ کے لیے مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ میامی جیسے شہر میں جہاں تارکینِ وطن کی ایک بڑی آبادی مقیم ہے، تین دہائیوں بعد پہلی مرتبہ ایک ڈیموکریٹک میئر ایلین ہگنس کا انتخاب اسی عوامی ردعمل کا عکاس ہے جو صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف جنم لے رہا ہے۔ ماہرینِ سیاسیات اور انتخابی جائزوں کے مطابق ووٹرز اب ان جارحانہ اقدامات کو محض امیگریشن کا مسئلہ نہیں بلکہ انسانی حقوق اور آئینی حدود کی خلاف ورزی کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اعتدال پسند ریپبلکن پولیٹیکل سٹریٹیجسٹ مائیک میڈرڈ کا کہنا ہے کہ محلوں میں نیم فوجی طرز کی کارروائیاں صدر ٹرمپ اور ان کی جماعت کے لیے سیاسی طور پر نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں۔ اعداد و شمار بھی مائیک میڈرڈ کے موقف کی تصدیق کرتے ہیں۔ مارچ میں امیگریشن پالیسی پر صدر ٹرمپ کی عوامی مقبولیت جو 50 فیصد تھی، دسمبر کے وسط تک گر کر 41 فیصد رہ گئی ہے۔ عوام میں اس بے چینی کی بڑی وجہ نقاب پوش وفاقی ایجنٹوں کی جانب سے رہائشی علاقوں میں آنسو گیس کا استعمال اور امریکی شہریوں کو غلطی سے حراست میں لینے جیسے واقعات ہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے نہ صرف قانون کے نفاذ کے عمل کو سخت کیا ہے بلکہ ہیٹی، وینزویلا اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکینِ وطن کی عارضی قانونی حیثیت بھی ختم کر دی ہے جس سے ملک بدری کے خطرے سے دوچار افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ صدر ڈونللڈ ٹرمپ کا ہدف سالانہ 10 لاکھ افراد کو ملک بدر کرنا ہے حالانکہ ماہرین کا خیال ہے کہ وہ رواں برس یہ ہدف پورا نہیں کر سکیں گے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments