International

روسی صدر کی جنگ بندی معاہدے کے طریقہ کار پر کڑی تنقید، وہ معاہدہ مسترد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں: زیلنسکی

روسی صدر کی جنگ بندی معاہدے کے طریقہ کار پر کڑی تنقید، وہ معاہدہ مسترد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں: زیلنسکی

روسی صدر ولادیمیرپوتن نے روس یوکرین میں جنگ بندی کے لیے امریکی تجاویز کی حمایت کا عندیہ دینے کے باوجود اس کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے کئی سخت شرائط بھی سامنے رکھ دی ہیں۔ صدر پوتن نے کہا ہے کہ روس یوکرین میں جنگ بندی کے لیے امریکی تجاویز سے متفق ہے لیکن کسی بھی جنگ بندی کے لیے تنازع کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ہوگا۔ روسی صدر کا یہ بیان یوکرین کے ساتھ 30 روزہ جنگ بندی کے اس منصوبے کے جواب میں سامنے آیا ہے جس پر یوکرین نے رواں ہفتے کے آغاز میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد اتفاق کیا تھا۔ دوسری جانب یوکرینی صدرولادیمر زیلنسکی نے پوتن کے ردعمل کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے روس پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکہ نے روس کے تیل، گیس اور بینکنگ سیکٹر پر مزید پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ جمعرات کو ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے صدر پوتن نے جنگ بندی کی تجویز کے بارے میں کہا کہ یہ منصوبہ درست ہے اور ہم اس کی حمایت بھی کرتے ہیں تاہم ایسے خدشات موجود ہیں جن پر ہمیں بات کرنے کی ضرورت ہے۔ صدر پوتن نے کہا کہ کسی بھی جنگ بندی کے لیے تنازع کی بنیادی وجوہات سے نمٹنا ہوگا تاکہ پائیدار امن قائم ہو سکے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے اپنے امریکی ساتھیوں اور شراکت داروں کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ضرورت ہے انھوں نے صدر ٹرمپ سے رابطے کا عندیہ بھی دیا۔ صدر پوتن نے مزید کہا کہ ’یہ یوکرین کے لیے اچھا ہو گا کہ وہ 30 دن کی جنگ بندی پر عمل کرے۔ ہم اس کے حق میں ہیں لیکن میں کئی خامیاں موجود ہیں۔ پوتن نے کہا کہ تنازعے والے علاقوں میں سے ایک روس کا مغربی کرسک علاقہ ہے جہاں یوکرین نے گزشتہ اگست میں فوجی مداخلت کر کے کچھ علاقے پر قبضہ کر لیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ کرسک مکمل طور پر روس کے کنٹرول میں آ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’کرسک میں یوکرینی باشندوں کے لیے دو آپشن ہیں یا تو ہتھیار ڈال دیں یا مر جائیں۔‘ صدر پوتن نے جنگ بندی کے مؤثر ہونے پر کئی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ 30 دن کیسے گزارے جائیں گے؟ کیا یوکرین اس دوران اپنی فوجی تیاری کرے گا؟یا صرف امن کے لیے وقت نکالا جائے گا؟ ان کے مطابق سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی نگرانی کیسے کی جائے گی اور کون لڑائی روکنے کا حکم دے گا؟ دوسری جانب صدر زیلنسکی نے اپنے خطاب میں کہا کہ پوتن اس جنگ بندی سے براہ راست انکار نہیں کر رہے لیکن عملی طور پر وہ اسے مسترد کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ زیلنسکی کے مطابق صدر پوتن نے اتنی زیادہ شرائط رکھ دی ہیں کہ ’حقیقت میں کوئی معاہدہ ممکن نہیں ہوگا۔ روسی حکام کو توقع ہے کہ پوتن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی سٹیووٹ کوف کے ساتھ جنگ ​​بندی پر بات کریں گے، جو جمعرات کو ماسکو گئے تھے تاہم یہ واصح نہ ہو سکا کہ یہ ملاقات واقعی ہوئی ہے یا نہیں۔ جمعہ کے روز روس کے سرکاری میڈیا نے فضائی ٹریفک کی نگرانی کرنے والی ویب سائٹ فلائٹ ریڈار کے حوالے سے بتایا کہ یہ طیارہ جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سٹیووٹ کوف کو لے کر ماسکو سے روانہ ہوا تھا۔ تاہم ماسکو اور واشنگٹن نے اس معاملے پر تاحال کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ جمعرات کی رات گئے روس اور یوکرین دونوں نے دشمن کی جانب سے نئے ڈرون حملوں کا دعویٰ کیا ہے۔ یوکرین نے کہا کہ شمال مشرقی شہر خارکیف میں روسی حملے میں بچوں سمیت سات افراد زخمی ہوئے ہیں جبکہ روس نے جنوبی شہر تواپسے میں ڈرون حملے کے باعث تیل کی ایک تنصیب میں آگ لگنے کا دعوی کیا ہے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments