International

روس تہران کے دنیا کے ساتھ معمول کے تعلقات نہیں چاہتا: جواد ظریف

روس تہران کے دنیا کے ساتھ معمول کے تعلقات نہیں چاہتا: جواد ظریف

ایران کے سابق وزیرِ خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا ہے کہ روس نے کبھی ایران کی حمایت نہیں کی، بلکہ اس کی پالیسی ہمیشہ اس مقصد کے گرد گھومتی رہی ہے کہ تہران مغرب کے ساتھ نہ تو مستحکم تعلقات قائم کرے اور نہ اس سے براہِ راست ٹکراؤ میں جائے۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی "ارنا" کو دیے گئے انٹرویو میں ظریف نے روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاؤروف کے حالیہ بیان کی تردید کی۔ بیان میں لاؤروف نے کہا تھا کہ "ٹریگر میکانزم" (اسنیپ بیک) کی شق پر ان کی اور جان کیری کی براہِ راست بات چیت سے اتفاق ہوا تھا۔ ظریف کے مطابق یہ پیشکش روس اور فرانس کی تھی، لیکن ایران نے اسے مسترد کیا کیونکہ یہ "قانونی جال" تھا جو معاہدے کو غیر مستحکم بناتا۔ ظریف کے مطابق روس نہیں چاہتا تھا کہ جوہری معاہدہ کامیاب ہو، کیونکہ اس سے ایران کے عالمی تعلقات معمول پر آ جاتے جو ماسکو کے مفاد کے خلاف تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ روس نے بظاہر تعاون کیا لیکن پسِ پردہ رکاوٹیں ڈالیں اور آخری مراحل میں دباؤ ڈال کر معاہدہ روکنے کی کوشش کی، تاہم معاہدہ اسی رات طے پا گیا۔ ظریف نے بتایا کہ روس نے پہلے بھی سلامتی کونسل کی قراردادوں کو عارضی طور پر معطل کرنے کی تجویز دی تاکہ ایران اور مغرب کے تعلقات "نہ جنگ نہ امن" کی کیفیت میں رہیں، جو ماسکو کے لیے فائدہ مند تھا۔ انھوں نے کہا کہ روس نے بوشہر پلانٹ کو مستقل روسی ایندھن پر چلانے کی تجویز بھی دی، جس سے ایران کا خود مختار ایٹمی حق ختم ہو جاتا۔ ظریف کے مطابق روس نے 2013 سے قبل ایران کے خلاف ساتویں باب کی کسی قرارداد کی مخالفت نہیں کی، اور صرف ان کی وزارت کے دوران چین و روس نے ایران کا مکمل ساتھ دیا۔ انھوں نے کہا کہ ماسکو نے اسی ذیل میں ایران کی شنگھائی تعاون تنظیم میں شمولیت بھی روکی۔ انھوں نے روس پر الزام لگایا کہ وہ ہمیشہ اپنے ویٹو کے حق کے تحفظ کو ایران کے مفادات پر ترجیح دیتا ہے اور اس کے رویّے سے واضح ہے کہ وہ نہیں چاہتا کہ ایران عالمی سطح پر خود مختار بنے۔ ظریف نے یہ بھی کہا کہ روس نے 2015 میں قاسم سلیمانی کے ماسکو کے خفیہ دورے کو افشا کیا اور بعد میں ایرانی ڈرون کے استعمال کی تفصیل بھی ظاہر کی، جو اس کے "نا قابل اعتماد" طرزِ عمل کا ثبوت ہے۔ ایرانی سابق وزیر خارجہ نے آخر میں کہا کہ روس بلاشبہ ایک اہم پڑوسی ہے، مگر اس کی پالیسی ہمیشہ یہی رہی ہے کہ ایران کو اپنے زیرِ اثر اور عالمی تنہائی میں رکھے ... یہی ماسکو کی "ریڈ لائن" ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے تا حال ظریف کے الزامات پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments