International

کیا طالبان بین الاقوامی قانونی حیثیت کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

کیا طالبان بین الاقوامی قانونی حیثیت کا امتحان پاس کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟

اگست 2021 میں طالبان کی افغانستان کے اقتدار میں واپسی اور تین سال سے زیادہ کے سیاسی تبدیلیوں کے بعد اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے ساتھ بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل ہونے کے لیے سنجیدہ مذاکرات شروع کیے ہیں۔ یہ مذاکرات گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور ٹام فلیچر کے افغانستان کے دورے کے بعد شروع ہوئے جہاں انہوں نے کابل اور قندھار میں تحریک کے سینئر رہنماؤں اور عہدیداروں سے ملاقات کی۔ ٹام فلیچر نے طالبان حکومت میں متعدد اصلاحات کے بدلے میں بین الاقوامی حمایت کی مشروط پیشکش کی ہے۔ کابل اور قندھار میں طالبان کے سینئر عہدیداروں کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کے دوران اقوام متحدہ کے ایلچی نے تین شرائط پر ملک کو بین الاقوامی برادری میں دوبارہ شامل کرنے کی پیشکش کی ہے۔ پہلی شرط ایک جامع افغان حکومت کی تشکیل ہے۔ پھر ملک میں دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ ہے اور انسانی حقوق کا احترام کرنا بھی شرط ہے جس میں لڑکیوں کو تعلیم اور انہیں کام کرنے کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔ بدلے میں طالبان نے اقوام متحدہ کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے اپنی حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے، اپنے رہنماؤں پر سے پابندیاں ہٹانے اور امریکہ اور یورپ میں منجمد افغان اثاثوں 9 بلین ڈالر کو جاری کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ اور طالبان حکومت نے فریقین کی طرف سے رکھی گئی چھ شرائط پر مرحلہ وار مذاکرات شروع کرنے اور ان پر عمل درآمد کے لیے چھ ماہ کا ایک ایکشن پلان تیار کیا ہے۔ اس تناظر میں طالبان کے ایک عہدیدار نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا کہ اقوام متحدہ اور افغانستان کے درمیان مذاکراتی منصوبے کی تیاری میں برطانیہ سمیت کئی بڑے ممالک نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کابل میں برطانوی سفارت خانے کے قائم مقام سفیر رابرٹ ڈکسن نے گزشتہ ماہ طالبان حکومت میں وزیر برائے مہاجرین اور واپسی مولوی عبدالکبیر (سابق نائب وزیراعظم) کو اقوام متحدہ کی پیش کردہ منصوبہ بندی کے لیے اپنے ملک کی حمایت سے آگاہ کیا تھا۔ اس منصوبہ بندی میں افغانستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانا، سلامتی کو یقینی بنانا اور دیگر مثبت مسائل شامل ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا طالبان کے اندر پیش کردہ منصوبے کی کوئی مخالفت ہے، عہدیدار نے کہا کہ طالبان کے رہنما ملا ھبۃ اللہ اخوندزادہ کے دفتر کی براہ راست نگرانی میں اور کابل میں سینئر عہدیداروں کی منظوری سے مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔ سٹاک ہوم سنڈروم تاہم نیویارک اور جنیوا میں اقوام متحدہ میں افغان مشنوں نے طالبان حکومت کو بین الاقوامی برادری میں ضم کرنے کے نئے منصوبے کی مخالفت کی ہے اور اسے سٹاک ہوم سنڈروم میں مبتلا افراد کی طرف سے چلائی جانے والی غیر ذمہ دارانہ کارروائی قرار دیا ہے۔ ’’ العربیہ ڈاٹ نیٹ ‘‘ کو دیے گئے ایک بیان میں اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل مندوب نصیر احمد فائق نے کہا ہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن ’’ یوناما‘‘ نے طالبان حکومت کو "موزیک" کے نام سے جانے والے جامع اور براہ راست بین الاقوامی مذاکرات کی تجویز پیش کی ہے اور افغان مسئلے پر اپنے خیالات پیش کرنے اور مشاورت کرنے کے لیے کچھ ممالک سے کہا ہے۔ سابق افعان حکومت کی پیروی کرنے والے یو این مندوب نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار برائے افغانستان فریدون سنیرلی اوغلو کی سلامتی کونسل کو پیش کردہ رپورٹ کی بنیاد پر پیش کردہ منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ فائق نے محسوس کیا کہ انضمام کے عمل میں شفافیت کا فقدان ہے اور تجویز کردہ منصوبہ بندی کے بارے میں کافی تفصیلات شامل نہیں ہیں۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اب تک منصوبہ بندی مشاورت کے مرحلے میں ہے اور اس پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے۔ جنیوا میں افغانستان کے مستقل مندوب نصیر اندیشہ نے اقوام متحدہ کی پیش کردہ منصوبہ بندی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن ’’ یوناما‘‘ میں سٹاک ہوم سنڈروم میں مبتلا ایک یا دو افراد کے خیالات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا نہ تو افغان عوام، نہ خطے کے ممالک، اور نہ ہی جی 7 کے تمام ممالک اس منصوبہ بندی سے متفق ہیں۔ جی 7 ممالک اور طالبان کو افغانستان میں دو اہم فریقوں کے طور پر رکھا گیا ہے۔ لہذا افغانوں پر مکمل مشاورت اور اتفاق رائے کے بغیر کچھ اور مسلط نہیں کیا جا سکتا۔ اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری جنرل برائے انسانی امور نے طالبان حکومت سے وعدہ کیا ہے کہ اگر طالبان سے باہر کے عہدیداروں پر مشتمل ایک جامع حکومت تشکیل دی جاتی ہے تو اقوام متحدہ افغانستان کی نشست طالبان حکومت کے حوالے کر دے گا جو دنیا کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے میں پہلا عملی قدم ہوگا۔ یاد رہے طالبان نے قطر میں اپنے سفیر اور سیاسی دفتر کے سربراہ سہیل شاہین کو اقوام متحدہ میں افغانستان کے مستقل مندوب کے عہدے کے لیے نامزد کیا تھا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے ساتھ مذاکرات اور افغانستان کی نشست انہیں دینے کا خیرمقدم کیا اور یہ سمجھا کہ نیویارک میں ان کی موجودگی بین الاقوامی برادری کے ساتھ زیر التواء مسائل کو حل کرنے میں معاون ثابت ہوگی اور دنیا کے ممالک کے ساتھ ان کے تعلقات کو وسعت دے گی۔ فائق نے زور دے کر کہا کہ افغانستان کی مستقل نشست طالبان کے حوالے کرنے کے بارے میں گردش کرنے والی خبریں محض افواہیں ہیں۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments