گذشتہ چند ہفتوں کے دوران جنوبی افریقہ میں غزہ سے آنے والے سیکڑوں فلسطینی پہنچے ہیں جو پراسرار انتظامات کے ذریعے وہاں لائے گئے۔ افریقی ملک پریٹوریا کے حکام نے ان پروازوں کو ’’مشکوک‘‘ قرار دیا، جنہیں ’’المجد یوروبا‘‘ نامی ایک غیر معروف ادارے نے خصوصی طیاروں کے ذریعے منظم کیا تھا۔ یہ معاملہ ایسے وقت سامنے آیا جب جنوبی افریقہ اور اسرائیل کے درمیان ان پروازوں کے پس منظر پر شدید سیاسی تنازع شروع ہو گیا۔ امریکی اخبار "نیویارک ٹائمز" کی رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر احمد شحادہ اور ان کے اہل خانہ کی داستان ان پراسرار سفر کی نوعیت کو بے نقاب کرتی ہے۔ شحادہ کو ایک شخص نے رابطہ کر کے بتایا کہ وہ ایک انسانی ہمدردی کی تنظیم سے وابستہ ہے جو خاندانوں کو غزہ سے نکال کر باہر لے جا سکتی ہے لیکن اس کے لیے فی کس سولہ سو ڈالر پیشگی ادا کرنے ہوں گے جو کرپٹو کرنسی میں جمع کیے جائیں۔ شحادہ نے اسے فراڈ سمجھ کر ابتدا میں انکار کر دیا مگر جب انہیں علم ہوا کہ ایک قریبی دوست اسی راستے سے باہر نکلا ہے تو وہ مان گئے۔ یوں شحادہ اپنی بیوی اور دو بچوں کے ساتھ ایک 24 گھنٹے طویل سفر پر روانہ ہوئے۔ پردے لگی بسوں میں بیٹھا کر انہیں حساس اسرائیلی چیک پوسٹوں سے گذارا گیا اور پھر جنوبی اسرائیل کے رامون ایئرپورٹ لے جایا گیا جہاں وہ ایک ایسے طیارے پر سوار ہوئے جس کی منزل سے وہ واقف نہیں تھے۔ پرواز کے دوران ہی انہیں بتایا گیا کہ طیارہ نیروبی اور پھر جنوبی افریقہ جائے گا۔ سفر کی ابتداء میں انہیں کرم ابو سالم کراسنگ پر اپنا سارا سامان چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ بار بار سکیورٹی چیک کے بعد انہیں نئی بسوں کے ذریعے ایئرپورٹ منتقل کیا گیا۔ جنوبی افریقہ کے وزیر خارجہ رونالڈ لامولا نے کہا کہ یہ کارروائیاں ’’غزہ اور غرب اردن سے فلسطینیوں کو نکالنے کے واضح ایجنڈے‘‘ کا حصہ دکھائی دیتی ہیں، جس کا اشارہ انہوں نے اسرائیل کی طرف کیا۔ تاہم اسرائیل نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ صدر سیرل رامافوزا نے بھی کہا کہ واقعات سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ فلسطینیوں کو غزہ چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا تھا اور اس صورتحال میں جنوبی افریقہ ان کی میزبانی کی خاص ذمہ داری رکھتا ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے ایک تیسرے ملک کی منظوری سے فلسطینی خاندانوں کو وہاں منتقل کیا لیکن ملک کا نام ظاہر نہیں کیا۔ گذشتہ ہفتے 153 فلسطینیوں کی دوسری پرواز جب جوہانسبرگ پہنچی تو مسافروں کو دس گھنٹے سے زیادہ طیارے میں بٹھائے رکھا گیا تاکہ ان کی امیگریشن کارروائی مکمل کی جا سکے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس طرز عمل کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ سرحدی حکام نے معاملے کو محدود سوچ کے ساتھ لیا اور غزہ سے نکلنے والوں کی غیر معمولی انسانی حالت کا لحاظ نہیں رکھا۔ بعد ازاں ایک مقامی تنظیم نے ان افراد کے قیام کا انتظام کیا اور انہیں جنوبی افریقہ کی جانب سے فلسطینیوں کے لیے دیے گئے 90 روزہ داخلہ استثنیٰ کے تحت ملک میں داخلے کی اجازت مل گئی۔ رپورٹ کے مطابق ان پُراسرار پروازوں کا انتظام کرنے والی ’’المجد یوروبا‘‘ ایک ایسی کمپنی ہے جو عوامی طور پر تقریباً غیر معروف ہے اور اس کے بارے میں قابل اعتماد معلومات دستیاب نہیں۔ اس کی ویب سائٹ پر صرف ایک مختصر بیان شائع ہوا جس میں اس نے اپنے کام کے جاری رہنے کی تصدیق کی اور اپنے نام سے کام کرنے والے جعلی گروہوں سے خبردار کیا۔ البتہ اس کے درج نمبروں پر کسی نے بھی فون نہیں اٹھایا۔ شحادہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے خاندان کے لیے 6400 ڈالر ادا کیے اور ان سے رابطہ واٹس ایپ اور غیر متوقع طور پر آنے والی کالوں کے ذریعے ہوتا رہا جو انہیں چند گھنٹوں کے اندر اندر سفر کے لیے تیار رہنے کا حکم دیتی تھیں۔ سفر کے تمام اسرار و اغماض کے باوجود شحادہ کا کہنا ہے کہ اب جنوبی افریقہ میں ان کی زندگی نسبتاً محفوظ ہے اور ان کی ننھی بیٹی پہلی بار ایک نارمل زندگی دیکھ رہی ہے۔ وہ دکان میں جا کر کھانا خریدنے یا بجلی کے ساکٹ سے فون چارج کرنے جیسی عام سی چیزوں پر حیرت کا اظہار کرتی ہے کیونکہ غزہ میں اسے یہ سب صرف یوٹیوب ویڈیوز میں ہی دیکھا تھا۔
Source: social media
آج شب چاند عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کا چینی صدر کو طنز بھرا پیغام
افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے: طالبان حکومت
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
گوگل کا اسرائیلی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں ڈالر کا معاہدہ
سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی کی قرارداد امریکا نے پھر ویٹو کردی