International

اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کسی بھی وقت بھڑک سکتا: نیویارک ٹائمز

اسرائیل اور ایران کے درمیان تنازع کسی بھی وقت بھڑک سکتا: نیویارک ٹائمز

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا اصرار ہے کہ امریکی افواج کی جانب سے ایرانی جوہری تنصیبات کے خلاف گزشتہ جون میں شروع کیے گئے حملوں نے تہران کے یورینیم افزودگی کے پروگرام کو ختم کردیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ملک ایرانی جوہری صلاحیتوں میں سے جو کچھ بچا تھا اسے تباہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ تاہم امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق خطے کے حکام اور ماہرین اس تصویر کو کم واضح اور اس سے بھی زیادہ خطرناک انداز میں دیکھتے ہیں۔ ماہرین مانتے ہیں کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان اگلا تصادم اب کوئی دور کی بات نہیں بلکہ کچھ وقت کی بات ہے۔ 2015 کے جوہری معاہدے ، جس نے ایران کی یورینیم کی افزودگی کو محدود کر دیا تھا، کی میعاد ختم ہونے نے صورت حال کو ایک بار پھر خراب کردیا ہے۔ امریکی پابندیاں دوبارہ لگائی گئی ہیں اور جوہری پروگرام پر مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ تہران کا دعویٰ ہے کہ اس کی زیادہ تر تنصیبات کو تباہ کر دیا گیا ہے جبکہ اسرائیل کا موقف ہے کہ ایران کے انتہائی افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو خفیہ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران بین الاقوامی معائنہ کاروں تک رسائی سے انکار کرتے ہوئے ایک نئی جگہ پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے جسے "ایکس ماؤنٹین" کہا جاتا ہے۔ اس صورت حال میں ایران ایک خطرناک مساوات کے مرکز میں آگیا ہے۔ کوئی مذاکرات نہیں، کوئی نگرانی نہیں اور اس کے جوہری ذخیرے کے حجم کے بارے میں کوئی وضاحت نہیں ہے۔ یہ مساوات خطے میں خوف کو ہوا دے رہی ہے کہ اسرائیل دوبارہ فوجی طاقت کا سہارا لے سکتا ہے۔ اس تناظر میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ میں ایران کے پروجیکٹ ڈائریکٹر علی فائزکا کہنا ہے کہ تہران تنازع کے ایک نئے دور کی تیاری کر رہا ہے۔ میزائل فیکٹریاں چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہیں اور پاسداران انقلاب کے کمانڈر بیک وقت 2000 میزائل داغنے کی خواہش رکھتے ہیں تاکہ اسرائیل کے دفاع کو مغلوب کیا جا سکے۔ گزشتہ جون میں ایسا نہیں ہو سکا تھا۔ اگرچہ فوری طور پر کسی فوری حملے کے کوئی اشارے نہیں ملے ہیں لیکن خطے کے سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل اپنے مشن کو نامکمل سمجھتا ہے اور جیسے ہی اسے محسوس ہوگا کہ ایران جوہری ہتھیاروں کی طرف سرخ لکیر عبور کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے تو وہ ایک اور حملہ کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تضاد یہ ہے کہ بڑی عرب طاقتوں نے واشنگٹن اور صدر ٹرمپ کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ مضبوط کر لیا ہے لیکن ساتھ ہی وہ تہران کے ساتھ رابطے کے کھلے ذرائع کو برقرار رکھنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ چتھم ہاؤس میں مشرق وسطیٰ کے پروگرام کے ڈائریکٹر سنام وکیل بتاتے ہیں کہ یہ ممالک نئی جنگ نہیں چاہتے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ ایران، اپنی کمزوری کے باوجود، لبنان، عراق، یمن اور خلیج میں پھیلی اپنی ملیشیاؤں اور پراکسیوں کے ذریعے خطے کو غیر مستحکم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments