(تنویر بن ناظم) یوں تو ریاست مغربی بنگال میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہے، باوجود اسکے اردو حد درجہ اپنا وقار کھوتی جارہی ہے۔ ڈیڑھ دہائی سے اردو لگاتار تنزل کا شکار ہو رہی ہے ۔بنگال میں مقابلہ جاتی امتحانات سے اردو کا تقریباً اخراج ہو چکا ہے۔ ویسٹ بنگال پولس کانسٹبل، ویسٹ بنگال ایکسائز، ویسٹ بنگال کواپریٹیو سروس کمیشن کے بعد مغربی بنگال کا سب سے بڑا مقابلہ جاتی امتحان WBCS سے بھی گزشتہ 25، اپریل ،2025 کو پبلک سروس کمیشن کے ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعہ لینگویج پرچہ سے اردو ہندی سنتھالی کو بے دخل کر کے 300 نمبرات کا بنگلہ لازمی پرچہ قرار دے دیا گیا۔ WBCS سے اردو سمیت تینوں زبانوں کے اس افسوس ناک اخراج نے خاص طور پر اردو والوں کے دلوں پر گہری ضرب لگائی ہے۔ لہذا WBCS میں اردو کی پھر شمولیت اور مغربی بنگال کی دوسری سرکاری زبان اردو کو اسکا جائز حق دلانے کیلۓ گزشتہ دنوں ہوڑہ کے معروف ایڈوکیٹ جناب امتیاز احمد کے دولت کدے پر ایک ضروری مشاروتی میٹنگ منعقد کی گئی جس میں محبان اردو جناب ماسٹر عبدالواحد(گھسڑی ہوڑہ) ، جناب ڈاکٹر نوشاد مومن (کلکتہ)، جناب ارشد علی (کلکتہ)، جناب نیاز احمد (فیل خانہ ہوڑہ)، جناب حیدر علی(گھسڑی)، جناب افضل خان (فیل خانہ ہوڑہ) و دیگر ہمدردانِ اردو کی موجودگی میں اتفاقِ راۓ سے "ہندی- اردو محاذ مہم " مخفف (HUMM) کی تشکیل عمل میں آئی۔ اس جلسے کی صدارت کرتے ہوئے میٹنگ کے جوائنٹ کنوینر ڈاکٹر نوشاد مومن نے کہا کہ بنگلہ ہماری ریاست کی پیاری زبان ہے اسکا لکھنا پڑھنا اور جاننا ہمیں ضروری ہے لیکن اس زبان کا بنیادی علم کے حصول کے مواقع فراہم کرنے کی ذمہ داری حکومت بنگال کے تعلیمی شعبے کی ہے۔ ہم اردو نوازوں نے ممتا حکومت سے بارہا مطالبہ کیا کہ اردو میڈیم اسکولوں میں ۵ ویں جماعت سے بنگلہ ایک لازمی یا تھرڈ لینگویج کے طور پر متعارف کرایا جائے اور اس زبان/ سبجیکٹ کیلئے اساتذہ بحال کئے جائیں، لیکن حکومت نے اس مطالبے کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا اور اردو اسکولوں کو دانستہ طور پر بنگلہ کی بنیادی تعلیمی سہولیات سے دور رکھا۔ اب اچانک (WBPSC) مغربی بنگال سول سروسز کے مقابلہ جاتی امتحانات 2025 میں ۳۰۰ نمبر کا بنگلہ مضمون لازمی قرار دے کر منصوبہ بندی سے اردو ذریعہء تعلیم والوں کو اس امتحانات میں حصہ لینے کے حق سے محروم کردیا گیا ہے جو نہ صرف یہ کہ حکومت کا غیر منصفانہ اور ایک معتصبانہ عمل ہے بلکہ دستور ہند میں شہریوں کو ملی ہوئ "برابری اور یکساں مواقع کے حقوق" کی بھی سراسر منافی ہے۔ جس کی ہم پرزور مخالفت کرتے ہیں اور حکومت بنگال سے WBPSC نوٹیفیکیشن میں تبدیلی کرنے کی نہایت مخلصانہ درخواست کرتے ہیں نیز غیر بنگلہ میڈیم والے تمام زبانوں کے اسکولوں میں کم سے کم درجہ "ششم سے دہم اور دو ازدہم" تک بنگلہ کو ایک لازمی/ تھرڈ لینگویج پرچہ کے طور پر 2026 سے رائج کرنے اور غیر بنگلہ میڈیم سے تعلیم حاصل کرنے والوں کو WBPSC مقابلہ جاتی امتحانات کیلئے کم از کم چھ سال کی مہلت دینے کی اپیل بھی کرتے ہیں تاکہ دیگر مادری زبان کے طلبا و طالبات کی حق تلفی نہ ہو اور وہ بچے بھی بنگلہ زبان والوں کے شانہ بہ شانہ سول سروسز امتحان میں شریک ہو سکیں اور اسمیں کامیاب ہوکر اپنی خدمات حسب سابق انجام دیتے رہیں۔۔ میٹنگ میں موجود قانون داں ایڈوکیٹ امتیاز احمد نے بنگال پبلک سروس کمیشن کے تازہ اعلامیہ پر اظہار افسوس کرتے ہوئے حکومت کے اس فیصلے Right to Equality کے خلاف قرار دیا جس کے حوالے سے اسے کٹہرے پر لا کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ محاذی حکومت کے دور میں اس سروس کمیشن سے تمام زبان و مذاہب کے بچے بچیوں کو یکساں مواقعے فراہم کئے جا رہے تھے اور بنگلہ صرف انٹرویو میں اسپیکنگ ریڈنگ رائٹنگ اینڈ انڈاسٹینڈینگ کی سطح تک تھا جس کی تیاری انٹرویو سے پہلے تین چھ مہینے میں خود کو تیار کرلیتے اور کامیاب ہوجایا کرتے۔ ہندی- اردو- سنتھالی محاذ مہم (HUMM) کے کنوینر عبدالواحد نے کہا کہ جو زبان ہمیں اسکول کی سطح پر نہ پڑھائ گئ ہو اور نہ ہی اسے پڑھنے کا کوئ معقول موقع فراہم کیا گیا ہو تو ایسے میں اس کا امتحان کیسے لیا جا سکتا ہے۔۔؟ کیا یہ اردو ہندی اور سنتھالی والوں پر ظلم نہیں۔۔؟ WBPSC کے امتحانات میں غیر بنگلہ زبان والوں کے لئے بنگلہ لازمی قرار دینا اور اس پرچے میں تیس فیصد (یعنی نوے نمبر) لازمی نہ لانے پر Mains کے امتحان میں یکسر فیل قرار دینا کیا ہمارے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔۔؟ کیا ممتا بنرجی کی حکومت دستور ہند کے خلاف جا کر ایسا کر سکتی ہے ۔۔۔؟ انہوں نے دوٹوک لہجے میں کہا کہ اگر حکومت ایسا کرنے پر آمادہ یے تو "اردو- ہندی اور سنتھالی محاذ مہم " آج یہ اعلان کرتا ہے کہ "اردو نہیں تو ہم نہیں"، "ہندی نہیں تو ہم نہیں" "سنتھالی نہیں تو ہم نہیں"۔ بعد ازاں مشاورتی میٹنگ میں یہ بات طے پائ کہ اس محاذ کو مضبوط کرنے کیلئے اس HUMM کے مہم کے تحت پہلے پہل ضلعی سطح پر میٹنگ کرکے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے پھر ریاستی سطح پر ایک بڑے عوامی کنونشن کے ذریعہ بلاتفریق زبان و سیاست ایک ریاستی کمیٹی تشکیل کر کے اپنے حقوق کی بازیابی کیلئے قانونی لڑائی لڑنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ اس لڑائی میں پورے مغربی بنگال کے محبانِ اردو کو اپنی زبان کی بقا اور اسکے وقار کو بحال کرنے کیلئے شامل ہونا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں ہم پر اپنی ذمہ داریوں سے منہ چرانے کا الزام نہ عائد کرسکیں۔ اس ضمن میں اگر ضرورت پڑی تو مالی تعاون کیلۓ بھی پیش رفت کرنا ہوگی تاکہ قانونی لڑائ کو ہمارا اردو ہندی سنتھالی آخری مقام تک پہونچا سکے۔۔۔!!
Source: Mashriq News service
آئڈیل گرانڈ میں شاندارعید ملن کا اہتمام
سینکٹروں ضرورت مندمریضوں کی مفت میں صحت کی جانچ کی گئی
خانقاہ خواجہ ہند الولی ، ٹکیہ پاڑہ ہوڑہ کے نو منتخب صدر و معروف مداح رسول جناب قیصر اشرقی کا انتقال ہوگیا۔
نتیش کو وقف بل کی حمایت کرنے سے آر جے ڈی کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟
فردوس مسجد کی طرف سے افطار پارٹی کا اہتمام، پولس افسران کی شرکت
ہمایوں کبیر انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے ایک شاندار دعوت افطار کا اہتمام
نتیش کو وقف بل کی حمایت کرنے سے آر جے ڈی کو کتنا فائدہ پہنچے گا؟
خانقاہ خواجہ ہند الولی ، ٹکیہ پاڑہ ہوڑہ کے نو منتخب صدر و معروف مداح رسول جناب قیصر اشرقی کا انتقال ہوگیا۔
سینکٹروں ضرورت مندمریضوں کی مفت میں صحت کی جانچ کی گئی
انجمن ترقی اردو مغربی بنگال بھی وقف معاملے پر لا بورڈ کے ساتھ ہے