الجزائر کے بین الاقوامی کتاب میلے میں رواں سال خوف، تخیل اور جنّات کے موضوعات سے متعلق کتابوں کی غیر معمولی مقبولیت نے بحث اور سوالات کو جنم دیا ہے۔ قارئین بڑی تعداد میں اُن ناشرین کے اسٹالوں کی جانب متوجہ ہوئے جو خوف و دہشت، پراسرار دنیا اور تخیلاتی ادب پر مشتمل کتابیں پیش کر رہے تھے۔ بعض ادبی و ثقافتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ موضوعات اب "عصرِ حاضر کا ادب" بن چکے ہیں، جب کہ دیگر ناقدین نے انھیں محض "تجارتی ادب" قرار دیا۔ گزشتہ برس کے بین الاقوامی کتاب میلے میں تخیلاتی ادب کے سعودی مصنف اسامہ المسلم نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی، جب اُن کی دستخطی نشست میں ہزاروں مداحوں کے ازدحام کے باعث تقریب روکنا پڑی۔ ان کی شہرت نے الجزائری نوجوان ادیبوں کے لیے بھی راہ ہموار کی، تاکہ وہ اس صنفِ ادب کو اپنائیں ... حالانکہ ابھی بھی کچھ حلقے اسے "تجارتی ادب" سمجھتے ہیں۔ ان مصنفین میں لبنی عبداللاوی بھی شامل ہیں، جو سوشل میڈیا پر “لولا” کے نام سے معروف ہیں۔ انھوں نے میلے میں اپنی دو کتابیں "مليكانا" اور "الجن" پیش کیں، جو زبردست کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔ دونوں کتابیں اتنی تیزی سے فروخت ہوئیں کہ ناشرین کو آخری دن دوبارہ اشاعت کر کے محدود تعداد میں دستیابی ممکن بنانا پڑی۔ لبنی نے بتایا کہ "میں نے اپنی کتابوں پر بہت محنت کی، خاص طور پر مليكانا پر جو خوف اور تخیل کے انداز میں لکھی گئی ہے۔ اس پر ایک سال تک مسلسل کام کیا، یہاں تک کہ سوشل میڈیا سے بھی کچھ عرصہ دور رہی۔" تقریباً 15 لاکھ فالوورز رکھنے والی لبنی نے کہا کہ "میرے ناول میں ایک نیا تخلیقی لمس موجود ہے، جسے میں تفاعلی ربط کہتی ہوں ... یہ آج کے ادب میں کہیں نہیں ملتا۔ میری کہانیوں کے مجموعے کے لیے مجھے صرف دو ماہ درکار ہوئے کیونکہ میں بیانیے میں مہارت رکھتی ہوں۔" انھوں نے یہ تاثر رد کیا کہ اُن کی خوف یا تخیل پر مبنی تصانیف تجارتی ہیں۔ ان کے مطابق، "تجارتی مصنف وہ ہوتا ہے جو محض فروخت کے لیے کچھ بھی لکھ دے۔ لیکن میں نے مليكانا کے لیے سخت محنت کی، یہ واقعی ایک فنی شاہ کار ہے اور پڑھنے کے قابل ہے۔" ثقافتی مبصر صہیب سحنون کے مطابق "یہ درست ہے کہ تخیل یا خیالی ادب کی صنف ہمارے ادبی ماحول میں ابھی نسبتاً غیر مانوس ہے، خاص طور پر پرانے قارئین کے لیے ... مگر چند مثالوں سے پورے رجحان پر فیصلہ دینا درست نہیں۔" انھوں نے مزید کہا "ضرورت اس بات کی ہے کہ اس صنف پر سنجیدہ اور گہری تحقیق کی جائے ... نہ صرف متن پر بلکہ مصنفین اور قارئین پر بھی ... ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قارئین کے لیے اس ادب کی کشش کیا ہے؟ کیا یہ صرف تفریح ہے، یا کسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش؟ اگر یہ واقعی کسی انسانی ضرورت کو پورا کرتا ہے، تو یہی اس کی کامیابی ہے۔" آخر میں سحنون نے نوجوان مصنفین کو نصیحت کی کہ وہ تحریر میں عجلت سے کام نہ لیں۔ ان کے مطابق "ادب دراصل انسانی تجربے کا اظہار ہے اور جتنا گہرا انسانی تجربہ ہو گا، اتنا ہی سچا اور با اثر ادبی کام سامنے آئے گا۔"
Source: social media
آج شب چاند عین خانہ کعبہ کے اوپر ہوگا
امریکی صدر ٹرمپ کا چینی صدر کو طنز بھرا پیغام
افغانستان میں زلزلے سے سینکڑوں افراد کی ہلاکت کا خدشہ ہے: طالبان حکومت
افغانستان میں زلزلے سے 800 سے زیادہ افراد ہلاک، ہزاروں زخمی
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
غزہ امن معاہدے پر امریکا، قطر، ترکیہ اور مصر نے دستخط کر دیے
نیپال میں پولیس کی فائرنگ سے 20 مظاہرین ہلاک، 350 زخمی، وزیر داخلہ مستعفی
گوگل کا اسرائیلی پروپیگنڈا کو فروغ دینے کیلیے کروڑوں ڈالر کا معاہدہ
ھند رجب پر بنی فلم کے لیے وینس فلم میلے میں غیر معمولی پذیرائی، 23 منٹ تک تالیاں بجتی رہیں