National

تسلیم جہاں معاملے میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈحکومت کو نوٹس جاری کیا

تسلیم جہاں معاملے میں سپریم کورٹ نے اتراکھنڈحکومت کو نوٹس جاری کیا

نئی دہلی، 13 ستمبر (: اترا کھنڈ کے رودرپور کی رہنے والی مسلم نرس تسلیم جہاں کے قتل کے معاملے میں آج سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے۔ یہ اطلاع جمعیۃ آج یہاں جاری ایک ریلیز میں دی گئی ہے۔ ریلیز کے مطابق آج اس مقدمہ کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی والی تین رکنی بینچ کے سامنے ہوئی جس کے دوران سینئر ایڈوکیٹ نتیا راماکرشنن نے عدالت کو بتایا کہ اس مقدمہ میں ابتک کی پولس تفتیش غیر اطمینان بخش ہے۔ پہلے دن سے ہی پولس کا رویہ غیر پیشہ وارانہ رہا ہے۔ متوفیہ کی گم شدگی کی رپورٹ درج کرانے کے بعد بھی پولس نے ایک ہفتہ تک کوئی کاروائی نہیں کی اور پھر عوامی احتجاج کے بعد پولس نے کارروائی شروع کرتے ہوئے ایک ملزم کو گرفتار کرلیا۔ مسٹر نتیا راما کرشنن نے عدالت کو بتایا کہ متوفہ گیارہ سال کی معصوم بچی اپنی ماں کے انتظار میں روتی بلکتی رہی،بجائے اس کی ماں سے ملاقات کہ ایک ہفتہ بعد اسے اس کی ماں کے دنیا سے گذر جانے کی اطلاع دی گئی جب سے بچی سکتے میں ہے۔ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو مزید بتایا کہ گمشدگی کے تعلق سے سال 2022 میں سپریم کورٹ نے ایک گائیڈ لائنس جاری کی تھی جس پر مقامی پولس نے عمل نہیں کیا۔ نتیا راما کرشنن نے عدالت کو مزید بتایا کہ ٓئے دن ایسے واقعات ہورہے ہیں اور پولس کی کاروائی محض خانہ پوری کرنے والی ہوتی ہے جس پر عدالت کو مداخلت کرنا چاہیے۔ نتیا راما کرشنن کے دلائل کی سماعت کے بعد پہلے تو چیف جسٹس نے کہاکہ ہم اس مقدمہ کو اترا کھنڈ ہائی کورٹ بھیج دیتے ہیں پھر نتیا راما کرشنن کی مزید بحث کے بعد،چیف جسٹس ڈی وائی چندر چور، جسٹس جے بی پاردی والا اور جسٹس منوج مشراء اس مقدمہ کو سماعت کے لئے قبول کئے جانے اور اترا کھنڈ سرکار کو نوٹس جاری کئے جانے کا حکم جاری کردیا۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی نے تسلیم جہاں کے معاملے میں سپریم کورٹ کا اتراکھنڈ سرکار کو نوٹس جاری کرنے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ جو کام حکومتوں کا تھا یعنی انصاف دینے کا اب وہ کام عدالتیں کر رہی ہیں انہوں نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات یہ ہے کہ تسنیم جہاں کو انصاف دلانے کے لئے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا حالانکہ کلکتہ میں جو واقعہ پیش آیا یہ معاملہ بھی اسی طرح کا انتہائی دل خراش اور بہیمانہ واقعہ ہے مگر افسوس ناک بات یہ ہے کہ پہلے واقعہ کو قومی سطح پر زبردست اہمیت دی گئی یہاں تک کہ ملک بھر میں اس کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ڈاکٹروں نے ہڑتال کی اور میڈیا نے کئی دنوں تک اس معاملے پر بحثیں کیں مگر تسلیم جہاں کے معاملے میں ہر طرف سے خاموشی رہی اور کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ مولا مدنی نے سوال کیا کہ کیا اب ملک میں مذہب کی بنیاد پر ہی انصاف مل سکتا ہے انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں اگر قانون کے مطابق شفافیت کے ساتھ کاروائی ہوئی ہوتی تو شاید جمعیۃ علماء ہند کو سپریم کورٹ کا رخ نہیں کرنا پڑتا۔ انہوں نے اخیر میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ سپریم کورٹ نے معاملے کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے کیس کی سماعت کی اور اترا کھنڈ حکومت کو نوٹس جاری کیا انہوں نے اس یقین کا بھی اظہار کیا کہ دوسرے بہت سے معاملے کی طرح اس معاملے میں بھی انصاف ملے گا۔ صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا ارشد مدنی کے قانونی تعاون سے متوفیہ کی بیٹی اور بہن نے سپریم کورٹ میں ایک پٹیشن داخل کرکے چیف جسٹس سے قتل کے اس مقدمہ کی سی بی آئی انکوائری اور متاثرین کو معاوضہ دیئے جانے کی درخواست کی تھی جس پر آج سماعت عمل میں آئی۔ دوران سماعت سینئر ایڈوکیٹ نتیا راما کرشنن کی معاونت ایڈوکیٹ صارم نوید، ایڈوکیٹ شاہد ندیم، ایڈوکیٹ استوتی رائے، ایڈوکیٹ مجاہد احمد و دیگر نے کی۔ عدالت سے ایف آئی آر نمبر 406/2024رودر پور پولس اسٹیشن کی مرکزی تفتیشی ایجنسی سے آزادانہ تحقیقات کرانے نیز متوفیہ کی کمسن بچی کو معاوضہ دینے کے لئے ریاستی حکومت کو حکم جاری کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔عدالت سے میڈیکل اسٹاف کی حفاظت کے لئے قومی سطح پر گائیڈلائنس تیار کئے جانے کی بھی درخواست کی گئی ہے۔عرض داشت کو متوفیہ کی کمسن بچی ضیاء ملک (بذریعہ نانا)اور بہن صاحبہ جہاں کے ذریعہ سپریم کورٹ میں داخل کیا گیاہے۔پٹیشن میں یونین آف انڈیا، منسٹری آف چائلڈ اور وومن اور اسٹیٹ آف اتراکھنڈ کو فریق بنایا گیا ہے۔

Source: uni news service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments