International

شامی حکومت کا بشار الاسد کے حامیوں کیخلاف فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان

شامی حکومت کا بشار الاسد کے حامیوں کیخلاف فوجی آپریشن ختم کرنے کا اعلان

شام کی نئی حکومت نے بشار الاسد کے حامیوں کے خلاف جاری ملٹری آپریشن ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق معزول صدر بشار الاسد کی حامی فورسز اور شامی فوج کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ ایک ہفتے سے جاری ہے۔ جنگی نگرانی کرنے والی ایک تنظیم نے دعویٰ کیا کہ ان جھڑپوں میں ایک ہزار سے زائد شہری ہلاک ہوگئے جن میں زیادہ تر علوی اقلیتی فرقے کے افراد شامل ہیں۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کو شام کی سیکیورٹی فورسز یا اتحادی گروپوں نے قتل کیا۔ یہ تشویش ناک تشدد شام کے ساحلی علاقے میں پیش آیا، جو علوی کمیونٹی کا گڑھ ہے اور اس سے شام کے نئے انتظامی دور کی نازک صورتحال کو شدید دھچکا پہنچا ہے۔ وزارت دفاع کے ترجمان حسن عبدالغنی نے بتایا کہ حکومت نے لاطاکیہ اور طرطوس کے ساحلی علاقوں میں سیکیورٹی خطرات اور "بشار الاسد ریجم کے باقیات" کے خلاف جاری "فوجی آپریشن" کو ختم کر دیا ہے۔ یہ اعلان شام کے عبوری صدر احمد الشاراع کے خطاب کے بعد آیا، جنہوں نے کہا تھا کہ شام کو کسی بھی بیرونی طاقت یا داخلی فریق کے ذریعے خانہ جنگی میں دھکیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ احمد شاراع نے اس خونریزی میں ملوث افراد کو سخت سزا دینے کا وعدہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک کے تمام نسلی اور مذہبی اقلیتی گروپ ہماری ذمہ داری ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق تشدد کی اس لہر میں 231 سیکیورٹی اہلکار اور 250 بشار الاسد کے حامی جنگجو مارے گئے ہیں۔ جابلہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ مقامی مسلح گروپوں نے شہر پر قبضہ کر لیا ہے اور وہاں بے شمار افراد کو قتل کر کے اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا گیا۔ اس دوران، دمشق میں یونانی آرتھوڈوکس پیٹریارک جان ایکس نے کہا کہ "بیشتر معصوم عیسائیوں کو بھی قتل کر دیا گیا"۔ سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کے مطابق، اس بدترین تشدد نے شام کے نئے حکام کے لیے سوالات اٹھا دیے ہیں کہ کیا وہ ملک میں امن قائم کرنے اور ریاستی طاقت کو مستحکم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے مطالبہ کیا ہے کہ آزاد قومی اور بین الاقوامی محققین کو شام کے ساحلی علاقوں میں تحقیق کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ اس قتل عام کے ذمہ داروں کا پتا چلایا جا سکے۔ ایران، جو بشار الاسد کا اہم اتحادی ہے، نے ان الزامات کو مسترد کیا ہے کہ تہران نے اس تشدد میں ملوث ہونے کی کسی طرح کی کوشش کی ہو۔ یاد رہے کہ احمد الشاراع کی قیادت میں باغی گروہوں نے گزشتہ برس کے آخر میں بشار الاسد کے طویل آمرانہ دور اقتدار کا تختہ الٹ دیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بشار الاسد ملک سے فرار ہوکر اہل خانہ کے ہمراہ روس پہنچ گئے تھے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments