International

جرمنی میں اسلام مخالف ریلی میں پولیس پر چاقو کا حملہ: افغان شہری پر مقدمے کا آغاز

جرمنی میں اسلام مخالف ریلی میں پولیس پر چاقو کا حملہ: افغان شہری پر مقدمے کا آغاز

جمعرات کو جرمنی میں ایک افغان شخص پر چاقو سے حملے کے الزام میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے جس میں گذشتہ سال اسلام مخالف ریلی میں ایک پولیس اہلکار ہلاک اور پانچ دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے۔ یہ سماعت ایسے وقت میں شروع ہو رہی ہے جبکہ جرمن انتخابات میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے اور ایسے مہلک حملوں کا الزام پناہ کے متلاشیوں پر لگائے جانے کے بعد امیگریشن اور عوامی تحفظ کے بارے میں گرما گرم بحث جاری ہے۔ مدعا علیہ جس کا صرف جزوی طور پر نام سلیمان اے بتایا گیا ہے، نے مبینہ طور پر ایک بڑے شکاری چاقو کا استعمال کرتے ہوئے کئی افراد کو دیوانہ وار حملوں کا نشانہ بنایا۔ یہ لوگ مغربی شہر منہائم میں بنیاد پرست اسلام کے خلاف ایک مہم کار گروپ پیکس یورپا کی ایک ریلی میں شریک تھے۔ چاقو بردار نے ابتدائی طور پر تقریر کرنے والے ایک شخص اور دیگر مظاہرین پر حملہ کیا، پھر مدد کے لیے پہنچنے والے ایک پولیس افسر پر چاقو کے وار کیے۔ وہ اسی دن زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ سلیمان اے جس کی عمر 31 مئی کے حملے کے وقت 25 سال تھی، کو بھی اسی جگہ پر گولی مار کر زخمی کر دیا گیا اور پھر گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ مشتبہ شخص پر دہشت گرد کے طور پر مقدمہ نہیں چلایا جا رہا لیکن استغاثہ نے اس پر داعش سے ہمدردی رکھنے کا الزام لگایا ہے۔ مدعا علیہ کو سٹوٹ گارٹ کی ایک ہائی سکیورٹی جیل میں زیرِ سماعت مقدمے میں قتل، اقدامِ قتل اور خطرناک جسمانی ایذا رسانی کے الزامات کا سامنا ہے۔ جرمن میڈیا رپورٹس کے مطابق افغان ملزم 2013 میں صرف 14 سال کی عمر میں اپنے بھائی کے ساتھ لیکن والدین کے بغیر جرمنی پہنچا تھا۔ اطلاعات کے مطابق انہیں پناہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا لیکن انہیں نابالغ اور کسی بڑے ساتھی کے بغیر ہونے کی بنا پر جلاوطنی اور مستقل رہائش کی اجازت دی گئی اور ابتدائی طور پر نگہداشت کی سہولیات میں رکھا گیا۔ استغاثہ کا الزام ہے کہ سلیمان اے نے مئی کے اوائل تک حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ آن لائن زیرِ گردش ایک ویڈیو میں دکھایا گیا کہ 29 سالہ پولیس افسر کے سر میں بار بار چھرا گھونپا گیا تھا جس پر بڑی تعداد میں جرمن حیران و پریشان رہ گئے۔ اس کے بعد ہونے والے کئی حملوں نے لاکھوں مہاجرین اور تارکینِ وطن کی گذشتہ عشرے کے دوران آمد پر بحث کو مزید ہوا دی ہے۔ اگست میں مغربی شہر سولنگن میں چاقو کے وسیع حملے میں تین افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے تھے جس میں ایک شامی مشتبہ شخص کو ملک بدر کیا گیا تھا لیکن وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بچ نکلا۔ اس حملے کی داعش نے ذمہ داری قبول کی تھی۔ حالیہ حملوں کی بنا پر انتہائی دائیں بازو کی جماعت آلٹرنیٹیو فار جرمنی (اے ایف ڈی) کی حمایت میں اضافہ ہوا ہے جو جائزوں کے مطابق 23 فروری کے قومی انتخابات سے قبل تقریباً 20 فیصد ووٹ حاصل کر رہی ہے۔ تازہ ترین حملے کے تناظر میں مرکزی دائیں بازو کی جماعت سی ڈی یو نے غیر قانونی نقلِ مکانی کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا ہے جو اس وقت رائے عامہ کے جائزوں میں تقریباً 30 فیصد کے ساتھ سب سے آگے ہے۔ لیکن اس مسئلے پر سی ڈی یو کے رہنما فریڈرک مرز کی پارلیمنٹ میں پیش کردہ ایک قرارداد غم و غصے کا باعث بنی جس نے انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے تعاون نہ کرنے کے برعکس ایک نئی روایت شروع ہوئی۔ یہ قرارداد اے ایف ڈی کے ووٹوں سے منظور ہوئی۔ انسانی حقوق کے گروپوں اور دیگر ناقدین نے الزام لگایا کہ مجوزہ اقدامات سے حملے نہیں رکیں گے بلکہ بے گناہ پناہ گزینوں کو سزا ملے گی اور یورپی یونین کے قانون کی خلاف ورزی ہو گی۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments