International

اسرائیل میں فوج کی وجہ سے لگائے سخت سنسرشپ میں جنگی نقصان کا اندازہ کرنا غیر ممکن

اسرائیل میں فوج کی وجہ سے لگائے سخت سنسرشپ میں جنگی نقصان کا اندازہ کرنا غیر ممکن

اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے کہ اس کے تہہ در تہہ دفاعی نظام کے باوجود ایران کی طرف سے داغے گئے 50 سے زائد میزائل اہداف تک پہنچنے اور تباہی کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن اسرائیلی فوج کی وجہ سے جاری سنسر شپ کے باعث اسرائیلی میڈیا ایرانی میزائلوں سے ہونے والی تباہی کا درست اندازہ لگا سکتا ہے نہ اس نقصان کو رپورٹ کر سکتا ہے۔ ظاہر بات ہے ایرانی میزائل حملوں سے اسرائیل کے شہروں تل ابیب، حیفا اور یروشلم سمیت فوجی تنصیبات، ایئر پورٹس اور بندرگاہوں پر ہونے والے نقصان کے درست اظہار سے اسرائیلی فوجی صلاحیت اور حکومت کی جنگی پالیسی کی بدنامی ہوگی۔ جبکہ اسرائیل کے پہلے خوفزدہ اور اپوزیشن کے لیے اثرات بھی سخت منفی ہوں گے اور بین الاقوامی سطح پر اسرائیلی رعب و دبدبہ متاثر ہوگا۔ اس لیے سخت سنسر مسلسل اسرائیل میں مسلط ہے۔ اس لیے ایران کے ساتھ 12 دن تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد جنگ بندی کو کئی روز ہو چکنے کے باوجود اسرائیل کے اندر اور باہر کوئی نہیں جانتا کہ اسرائیل کا نقصان کتنا اور کہاں کہاں ہوا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اسرائیل میں جنگ سے زیادہ اب تک اس سنسر نے حکومت اور اسرائیلی فوج کی لاج رکھی ہوئی ہے۔ اسرائیل میں کسی بھی چیز کی اشاعت قومی نقصان میں روکی جا سکتی ہے۔ نیز کسی بھی وقت اس سنسر کو سخت ترین حد تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ لہذا اب تک کل اسی جانی نقصان کا چرچا ہے جو اسرائیل کے سخت سنسر سے چھن کر سامنے آ سکا ہے کہ ایرانی حملوں سے بارہ دنوں میں 28 اسرائیلی ہلاک ہوئے۔ اسرائیلی شہروں میں ہونے والی تباہی کے مناظر سامنے ہونے کی وجہ سے جنگ بندی کے بعد اسرائیل میں سنسر شپ کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ کسی بھی جرنلسٹ یا میڈیا آؤٹ لیٹ کو جنگ زدہ علاقے یا جنگی زون کی کوریج کرنے کا تحریری اجازت لازم ہے۔ بصورت دیگر یہ قومی مفاد کے خلاف اور یہود دشمنی کے زمرے میں آتا رہے گا۔ اسرائیل کے پریس دفتر کے مطابق یہ اشاعت اور نشریات پر عائد کردہ یہ پابندیاں فوجی مراکز ، اننٹیلی جنس اداروں کے مراکز ، آئل ریفائنریز ذور دوسرے حساس علاقوں میں زیادہ سخت ہیں۔ تل ابیب یونیورسٹی میں میڈیا سوشیالوجی کے پروفیسر جیریمی بورڈن کے مطابق بلا شبہ یہ قومی مفاد کا تقاضا ہے کہ ان چیزوں کی اشاعت نہ کی جائے ورنہ دشمن کو پتہ چل جائے گا اور دشمن کے مقاصد پورے ہوں گے۔ لیکن اس میں یہ بھی قابل توجہ بات ہے کہ ملک میں اطلاعات کی بندش سے بے یقینی کی کیفیت رہتی ہے۔ جو ملکی مفادات کے خلاف جا سکتی ہے اور دشمن اس سے بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ انہوں نے بھی مشورہ دیا کہ بیانیے کو الٹ دینا چاہیے ۔ جنگ کے دنوں میں فوج کی کوشش فوجی کامیابیوں کو زیر بحث لانے کی تھی اب یہ ضرورت بدل رہی ہے۔ ادھر وسطی اسرائیل سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق رامات گان میں اسرائیلی مغربی اداروں یعنی خبر رساں اداروں کو کوریج سے روکا کیونکہ یہ الجزیرہ کو ویڈیوز فروخت کر سکتے ہیں۔ یاد رہے اسرائیل نے مئی 2024 میں الجزیرہ پر پابندی لگا دی تھی۔ نیز اس پر یہ الزام لگایا تھا کہ اس کے فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے ساتھ تعلقات و رابطے ہیں۔ اسرائیلی سیکیورٹی سے متعلق خبر رساں اداروں کو کوریج سے روکنے کی کارروائی اندرونی سلامتی کے انتہا پسند وزیر ایتمار بین گویر کی ہدایت اور جاری کردہ پالیسی کے تحت کی ہے۔ انتہائی دائیں بازو کے یہ انتہا پسند وزیر جنگ کے ناقدین کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی کے لیے مشہور ہیں۔ انہوں نے سولہ جون کو ریاست کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف اپنی پالیسی مزید سخت کر دی ہے۔ اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو کارہی نے گونجا نے بھی پالیسی پر سختی سے عمل کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کی ایک تحقیق کار تہیلا شوارٹز آلٹسولر نے کہا کہ دونوں وزراء ایسے دعوے اور اقدامات کرتے ہیں جو ان کے اختیارات کے قانونی فریم ورک سے متجاوز ہوتے ہیں۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments