انجمن باغ و بہار ،برہ پورہ،بھا گل پورکے زیر اہتمام جوثر ایاغ کی صدارت میں پروفیسر یوسف تقی کے یوم وفات پر ایک ادبی تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا۔اس موقع پر انجمن کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر محمد پر ویز نے کہا کہ پروفیسر یوسف تقی دور جدید کا ایک معتبر نام ہے۔وہ بہت نیک و فعال شخصیت کے مالک تھے۔ میری ان سے ملاقات 2016ءبھاگل پور کے سیمنار میں ہوئی تھی۔ اس سیمنار میں پروفیسر رئیس انور صاحب کے علاوہ اور بھی کئی ادبی شخصیات موجود تھیں۔پروفیسر یوسف تقی صاحب میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے ،ان سے بہت ساری ادبی گفتگو ہوئی ،مجھے کچھ دیر بعد معلوم ہوا میرے ساتھ بیٹھا شخص پروفیسر یوسف تقی صاحب ہے جو بیک وقت شاعر،تنقید،محقق اور کلکتہ یونیورسٹی کے سابق صدرشعبہءاردو ہیں۔انکا اصل نام یوسف رئیس تقی اور ادبی دنیا میں یوسف تقی کے نام سے مشہور ہیں۔15اگست 1943ءمیں پیدا ہوئے اور وفات 3ستمبر2017ءکلکتہ میں۔انکے والد کا نام محمد رئیس الدین تھا۔ایک محقق کی حیثیت سے اردو ادب میں ان کی شناخت مضبوط رہی ہے۔انہوں نے ایک استاد کی حیثیت سے کئی نسلوں کی آبیاری کی۔انکی تصانیف میںترقی پسند تحریک اور اردو نظم،مرشد آباد کے چار کلاسیکی شعرائ، مثنوی جہاں شاہ و جہا بانو،تمحیص و تجزیہ، خشک ٹہنی زرد پتے،بدر الزماں بدر کلکتوی : حیات و خدمات، بنگال میں اردو ناول، کلیات بدر وغیرہ ہیں۔انکی اہم نظموں میں میں جینا چاہتا ہوں،مگر،جھوٹ کے پاﺅں،خودفریبی،آخری فیصلہ،خواہش،دوسری حقیقت،باپو،اعتراف،آگہی وغیرہ ہیں۔ کئی طلبہ و طلبات نے انکی نگرانی میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کیا۔ نشست میں شامل محمد شاداب عالم،شہزور اختر،محمد تاج الدین، محمد بلال الدین،محمد سہیم الدین نے پروفیسر یوسف تقی کے فن سے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
Source: social media
مولانا مشاہد کےلئے دعا کی درخواست
منموہن سنگھ نہرو کے بعد سب سے کامیاب وزیر اعظم تھے: اوپی شاہ
ایڈوکیٹ امتیاز احمد کو ملی اہم ذمہ داری
بزمِ گلستانِ سخن کا 54 واں ماہانہ عالمی طرحی مشاعرہ جیو میٹ پر منعقد ہوا۔
813 واں عرس خواجہ غریب نواز کے موقع پر دس روزہ میڈیکل کیمپ
سیاست و مذہب کے اختلاط سے سیکولرزم خطرے میں ایڈوکیٹ تنویر بن ناظم