ایک نئی سائنسی دریافت میں سائنسدان دنیا کے قدیم ترین نقشے کو سمجھنے میں کامیاب ہو گئے، جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ نقشہ پیغمبر حضرت نوح کی کشتی کے مقام تک لے جا سکتا ہے۔ نیو یارک پوسٹ ویب سائٹ کی جانب سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 3000 سال پرانے بابل کے اس فن پارے نے ماہرین آثار قدیمہ کو صدیوں سے حیران کر رکھا ہے لیکن گذشتہ چند ہفتوں میں ماہرین نے اس ٹکڑے کا مطلب دریافت کر لیا ہے۔ سائنسدانوں کا سفر اس فن پارے سے شروع ہوا جو 1882ء میں برٹش میوزیم کے حاصل کرنے سے قبل مشرق وسطیٰ میں دریافت ہوا تھا۔ اس کی دریافت کے بعد سے ماہرین اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فن پارے کے نمونے پر کندہ نقشہ کیسا لگتا ہے۔ پتھر کے نقشے میں اس کی پشت پر مسماری تحریر کے کئی پیراگراف ہیں اور نقشے کے اوپر خاکے میں زمین کی تخلیق اور اس کے باہر موجود چیزوں کی تفصیل ہے۔ ماہرین نے ان نقش و نگار کو ’ Imago Mundi‘ کا نام دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ نقشہ قدیم میسوپوٹیمیا کوظاہر کرتا ہے جسے اب جدید عراق کہا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا خطہ ہے جسے چاروں طرف سے "دریائے المر" نے گھیر رکھا ہے۔ یہ دریا مشہور بابل کی دنیا کی حدود کی نشاندہی کرتا ہے۔ لیکن ان علامتوں کا ایک ماہ سے زیادہ تجزیہ کرنے کے بعد محققین کا خیال ہے کہ یہ بائبل کی کہانیوں کے واضح حوالہ جات ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ فن پارے کے پچھلے حصے نے یہ ظاہر کرنے کے لیے ایک خفیہ کلید کا کام کیا کہ مسافر کس راستے پر جائیں گے اور انہیں راستے میں کیا تلاش کرنا چاہیے۔ ایک حوالہ کہتا ہے کہ سفر کرنے والوں کو "پارسیکٹو جہاز جیسی موٹی چیز دیکھنے کے لیے سات لیگز کا سفر کرنا چاہیے"۔ ترکیہ میں پہاڑ لفظ "پارسیکٹو" کا مطلب دیگر قدیم بابلی نصوص کی بنیاد پر عظیم سیلاب سے بچنے کے لیے درکار جہاز کے سائز کی وضاحت میں مدد کرنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک اور کلپ میں ’اورارتو‘ تک پہنچنے کے لیے ایک راستہ اور ہدایات دکھائی گئی ہیں۔اس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک آدمی اور اس کا خاندان اپنے بنائے ہوئے ایک بڑے جہاز میں اترے تھے۔ قدیم میسوپوٹیمیا کی نظموں ایسا ہی کچھ ملتا ہےجسے عام طور پر نوح کی کشتی کہا جاتا ہے۔ برٹش میوزیم کیونیفارم کے ماہر ڈاکٹر ارونگ فنکل کے مطابق "یہ اس کشتی کی تفصیل ہے جو تھیوری میں، نوح کے بابلی ورژن کے ذریعے بنائی گئی تھی"۔ اورارتو جسے اورارات بھی کہا جاتا ہے ترکیہ میں ایک پہاڑی چوٹی پر واقع ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں 150 دن کے سیلاب کے بعد جہازٹھہرا تھا۔ جبکہ فنکل نے وضاحت کی "یہ ظاہر کرتا ہے کہ کہانی ایک ہی تھی"۔ انہوں نے بات جاری رکھتے ہوئے اگر آپ اس سفر پر جائیں گے تو آپ کو اس تاریخی کشتی کے باقیات نظر آئیں گے"۔ ابھی تک یہ تنازعہ موجود ہے کہ آیا بابل کی کہانی میں مذکور ترک پہاڑ اورارات کا وجود تھا یا نہیں۔
Source: social media
ٹرمپ کے نئے ٹیرف کےاعلان کے بعد امریکی مارکیٹ میں بڑی گراوٹ
آکسفورڈ گریجویٹ جاب نہ ملنے پر فوڈ ڈیلیوری بوائے بن گیا
امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کے لیے تیار ہیں: ایرانی صدر
غزہ میں جاری انسانی بحران نظر انداز نہیں کیا جا سکتا: سعودی وزیر خارجہ
’’ غزہ ہیومینیٹیرین‘‘ نے فلسطینیوں کے قیام کیلئے پٹی کے اندر اور باہر علاقے تجویز دیدی
نیتن یاہو نے ٹرمپ کو امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کیا، کہا- آپ اس کے مستحق ہیں
تیسری جنگ عظیم میں چین اور روس بیک وقت حملے کرسکتے ہیں: نیٹو سیکرٹری جنرل
پاکستان نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا، وائٹ ہاؤس
ٹرمپ نے جاپان، جنوبی کوریا، ملائیشیا، بنگلہ دیش سمیت 14 ممالک پر بھاری ٹیکس عائد کئے
پوتن کے برطرف کردہ وزیر ٹرانسپورٹ مردہ حالت میں پائے گئے
اسرائیل: ڈیمونا نیوکلیئر پاور پلانٹ بند
یمن میں حوثیوں کے ٹھکانوں کو 60 بموں کے ذریعے نشانہ بنایا ہے : اسرائیلی فوج
آسٹریلوی چڑیا گھر میں شیر کے حملے میں خاتون بازو کھو بیٹھی
ڈونلڈ ٹرمپ اور ایلون مسک کے درمیان ’ایکس‘ اور ’ٹروتھ سوشل‘پر گرما گرم جنگ