پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی کے تناظر میں پاکستانی دفتر خارجہ نے واضح موقف اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان نے بھارت کے ساتھ طے پانے والے کسی بھی دوطرفہ معاہدے کی منسوخی کا نہ تو کوئی حتمی فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے باضابطہ کوئی قدم اٹھایا گیا ہے۔ یہ وضاحت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستانی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں بیان دیا تھا کہ شملہ معاہدہ اب ختم ہو چکا ہے اور موجودہ صورتحال میں کنٹرول لائن کو دراصل سیز فائر لائن ہی تصور کیا جانا چاہیے۔ وزیر دفاع کے اس بیان کے بعد ملکی و بین الاقوامی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ آیا پاکستان واقعی بھارت سے تمام معاہدے ختم کرنے کی طرف جا رہا ہے یا یہ محض سیاسی بیان تھا۔ یاد رہے کہ شملہ معاہدہ 1972 میں پاکستان و بھارت کے درمیان ہوا تھا۔ جس کے تحت متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے درمیان ایک لائن آف کنٹرول قائم کی گئی تھی۔ اس معاہدے پر 1971 کی پاک بھارت جنگ کے بعد دستخط کیے گئے تھے۔ اس معاہدے سے بھارت نے یہ تاثر پختہ کرنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان و بھارت کشمیر کے تنازعہ کو دو طرفہ طور پر حل کریں گے۔ تاہم امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے حالیہ کرائی گئی جنگ کے بعد عملاً بھارت نے بھی اس حقیقت کو تسلیم کر لیا ہے کہ معاملات دونوں ملکوں کے درمیان طے ہونا ممکن نہیں اور یہ ایک غیر حقیقت پسندانہ سوچ ہے۔ اسی معاہدے کے تحت پہلے سے موجود 'سیز فائر' نام کو 'کنٹرول لائن' کا نام دیا گیا تھا۔ جو دونوں ملکوں کے انتظامی کنٹرول کو تسلیم کرنے کے مترادف تھی۔ پاکستانی وزیر کی طرف سے شملہ معاہدے کو ختم کرنے سے متعلق ممکنہ اقدام کا ذکر بھارت کے اس اعلان کے بعد سامنے آیا ہے جو بھارت نے عالمی برادری کی مدد سے کیے گئے سندھ طاس معاہدے کو ماہ اپریل میں معطل کر دیا تھا۔ پاکستانی وزیر دفاع نے میڈیا انٹرویو میں کہا 'شملہ معاہدہ ختم ہو گیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب وہی سٹیٹس بحال ہو گیا ہے جس کے تحت پہلے بھی ہم سمجھتے تھے کہ دو طرفہ حل قابل عمل نہیں ہے۔ میری رائے میں شملہ معاہدہ اب ہونے والی جنگ کے بعد کوئی اہمیت نہیں رکھتا ہے۔ ' انہوں نے اس موقع پر یہ بھی کہا 'بھارت کی طرف سے سندھ طاس معاہدے پر یکطرفہ طور پر عمل کو روکنا غیر قانونی ہے۔ اس غیر معمولی معاہدے میں دونوں فریق اپنے طور پر کوئی تبدیلی نہیں کر سکتے۔ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں پاکستان و بھارت نے عالمی بنک کی مدد سے مکمل کیا تھا۔ جس میں اس وقت کی عالمی طاقتوں نے بھی دونوں کی مدد کی تھی۔ حالیہ چار روزہ جنگ کے بعد 10 مئی سے پاکستان و بھارت کے درمیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مدد سے ہونے والا جنگ بندی معاہدہ جاری ہے۔ تاہم دونوں کے درمیان کشیدگی اور اکا دکا ناخوشگوار واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ بھارت کی طرف سے ایک بار پھر پاکستان پر حملہ کرنے کے حوالے سے مختلف آوازیں اٹھتی رہتی ہیں جس کے جواب میں پاکستان بھی باور کرا چکا ہے کہ وہ ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔ اس بیان کے بعد پیدا ہونے والی سیاسی و سفارتی صورت حال کو سنبھالتے ہوئے دفتر خارجہ نے ایک وضاحت جاری کی ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کی جانب سے کسی بھی دوطرفہ معاہدے کو ختم کرنے یا اس سے دستبردار ہونے کا کوئی باضابطہ فیصلہ نہیں ہوا۔ دفتر خارجہ کے ایک سینئر عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ پاکستان کی پالیسی ایسے حساس معاملات میں ہمیشہ بین الاقوامی اصولوں اور سفارتی روایات کے مطابق رہی ہے اور موجودہ صورتحال میں بھی ایسا ہی طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
Source: social media
ہارورڈ میں غیر ملکی طلباء پر ٹرمپ کی پابندی: جج کی جانب سے عارضی معطلی
نیوزی لینڈ: پارلیمنٹ میں ہاکا کرنے والے 3 ماوری ارکان معطل
زمبابوے میں 50 ہاتھیوں کے شکار کی منظوری، گوشت عوام میں تقسیم ہوگا
حجاج کرام طوافِ زیارت ادا کر رہے ہیں ... مسجد حرام کے تمام گوشے بھر گئے
غزہ کی پٹی میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک ... ایک زخمی فوجی اغوا کرنے کی کوشش
چیٹ جی پی ٹی یا محبوبہ؟ نوجوان سے پیار محبت کی باتیں، تصویر وائرل
حجاج کرام طوافِ زیارت ادا کر رہے ہیں ... مسجد حرام کے تمام گوشے بھر گئے
حجاج کرام کی منیٰ میں جمرہ کبریٰ کی ادائیگی، مناسک حج کے اہم مرحلے کا آغاز
سعودی عرب سمیت دیگر عرب اور متحدہ عرب امارات, یورپی ممالک میں میں نمازِعیدالاضحیٰ کے اجتماعات
ایلون مسک اور ٹرمپ کی دوستی دشمنی میں بدل گئی، سخت الزامات