National

کیا نیوزی لینڈ کی درآمدات پر چھوٹ کشمیری سیب کی صنعت کے لیے نیا بحران ثابت ہوگا؟

کیا نیوزی لینڈ کی درآمدات پر چھوٹ کشمیری سیب کی صنعت کے لیے نیا بحران ثابت ہوگا؟

سرینگر: بھارت کی جانب سے نیوزی لینڈ کے ساتھ آزادانہ تجارتی معاہدے کے تحت سیب کی درآمدات پر 25 فیصد ٹیکس میں چھوٹ دئے جانے سے پہلے سے بحران کی شکار کشمیر کی سیب کی صنعت کو آئندہ سال مزید اور سخت چیلنجز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت بھارت میں درآمد کیے جانے والے سیب پر 50 فیصد امپورٹ ڈیوٹی عائد ہے۔ نیوزی لینڈ کی وزارت تجارت نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بھارت ہر سال نیوزی لینڈ سے 31,392.6 میٹرک ٹن سیب درآمد کرتا ہے، جس کی مالیت 32.4 ملین امریکی ڈالر ہے۔ جبکہ بھارت کی کل سیب درآمدات 5,19,651.8 میٹرک ٹن (424.6 ملین امریکی ڈالر مالیت) ہیں۔ آزادانہ تجارتی معاہدے کے تحت پہلے سال نیوزی لینڈ سے 32,500 میٹرک ٹن سیب پر ڈیوٹی میں چھوٹ دی جائے گی۔ معاہدے کے چھٹے سال تک اس مقدار کو بڑھا کر 45,000 میٹرک ٹن کیا جائے گا، جس پر 25 فیصد ڈیوٹی اور کم از کم درآمدی قیمت 1.25 امریکی ڈالر فی کلو رکھی جائے گی۔ اس کوٹے سے زیادہ درآمد پر دوبارہ 50 فیصد ڈیوٹی لاگو ہوگی۔ وادی کشمیر میں سیب کی صنعت کے ساتھ وابستہ تاجروں اور ماہرین کا ماننا ہے کہ امپورٹ ٹیکس کی یہ چھوٹ کروڑوں روپے مالیت کی کشمیر کی سیب انڈسٹری کے لیے بھارت کی منڈیوں میں ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگی۔ جموں و کشمیر کی معیشت میں اہم رول ادا کرنے والی اس صنعت کے ساتھ قریب سات لاکھ کنبوں کا روزگار بالواسطہ یا بلاواسطہ منسلک ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں 2.15 لاکھ ہیکٹر زمین پر سیب کی کاشت کی جاتی ہے، جس سے سالانہ 2.4 لاکھ میٹرک ٹن سے زیادہ پیداوار حاصل ہوتی ہے جو بھارت میں سیب کی کل پیداوار کا 78 فیصد حصہ ہے۔ کشمیر ویلی فروٹ گروورز کم ڈیلرز یونین کے چیئرمین، بشیر احمد بشیر، کے مطابق ’’ٹیکس میں یہ چھوٹ کشمیر کی سیب انڈسٹری کو متاثر کرے گی، جو پہلے ہی موسم سے جڑی رکاوٹوں، سڑک رابطے کے مسائل اور دیگر لاجسٹک مشکلات سے دوچار ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ اثر ان سیبوں پر پڑے گا جو کولڈ اسٹوریج میں رکھے جاتے ہیں اور آف سیزن میں فروخت ہوتے ہیں، کیونکہ وادی میں سیب کی اصل فصل کا سیزن ستمبر سے شروع ہوتا ہے۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’گزشتہ چند برسوں کے دوران کولڈ اسٹوریج میں سیب اسٹور کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے، کیونکہ اس سے کاشتکاروں کو آف سیزن اپنی پیداوار کی اچھی قیمت ملتی ہے۔‘‘ تاہم ان کا خیال ہے کہ ’’جب نیوزی لینڈ کے سیب ٹیریف میں چھوٹ کے ساتھ بھارت کی منڈیوں میں پہنچیں گے تو اس کے براہِ راست اثرات مرتب ہوں گے۔‘‘ سابق وزیر خزانہ اور ماہر اقتصادیات حسیب درابو کا ماننا ہے کہ اگرچہ نیوزی لینڈ کے ساتھ بھارت کے معاہدے میں ’’کوئی واضح اعتراف نہیں‘‘ ہے، تاہم کشمیر کی سیب انڈسٹری کو اُس طویل مدتی پیٹرن کے لیے خود کو تیار کرنا ہوگا، جس میں بھارت دوسرے ملکوں کے ساتھ بھی تجارتی معاہدے انجام دے سکتا ہے۔ انہوں نے کہا: ’’ہم خاموش تماشائی بن کر صرف تشویش کا اظہار کرنے کے متحمل نہیں۔ کاشتکار اور حکومت، دونوں کو مل کر ہائی ڈینسٹی باغات، کولڈ اسٹوریج، اور زیادہ ریسرچ والی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لاکر معیاری پیداوار بڑھانے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔‘‘ پیداوار کے حوالہ سے درابو نے کہا: ’’سیب کی ہماری پیداوار فی ہیکٹر 11 ٹن ہے جبکہ عالمی سطح پر 44 ٹن فی ہیکٹر ہے۔ ہمیں اپنی پیداوار بڑھانی ہی پڑے گی۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ لاگت کو کنٹرول کرنا، معیار کو بہتر بنانا، کمپی ٹیٹیو مارکیٹنگ اور برانڈنگ جیسے عناصر کو اپنانا ضروری ہے، ’’تاکہ ہم سیب کی منڈی میں اپنا ووجود قائم و دائم رکھ سکیں۔ کاشتکار اور حکومت دونوں کو مل کر اس صنعت کو مسلسل چلتے رہنے اور روز افزوں ترقی کے قابل بنانا ہوگا۔‘‘ سوپور فروٹ منڈی کے صدر فیاض احمد ملک نے ماضی میں ہوئے اسی طرح کے واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہ کشمیر کے سیب کو پہلے بھی اسی طرح کے چیلنجز کا اُس وقت سامنا رہا جب امریکہ، آسٹریلیا، ایران، افغانستان اور ترکی سے آنے والی درآمدات نے کشمیر کے سیبوں کے لیے مقابلہ مزید تیز اور سخت کر دیا تھا۔ انہوں نے ای ٹی وی بھارت کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا: ’’ہمارے سیب کی کوالٹی غیر ملکی سیب کے مقابلے میں کم رہتی ہے۔ اور اب اس طرح کی ٹیکس میں رعایت سے مارکیٹ میں ہمارے سیب کے لیے مقابلہ بڑھ جاتا ہے، جس کی وجہ سے یہاں کے سیب کو مارکیٹ کم قیمت ملتی ہے جس کا سب سے زیادہ خمیازہ چھوٹے تاجرین اور کم پیدوار والے غریب کسانوں کو بھگتنا پڑتا ہے اور وہ مالی خسارے کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments