National

اُناؤ ریپ کیس: عمر قید کی سزا معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی

اُناؤ ریپ کیس: عمر قید کی سزا معطل کرنے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی

نئی دہلی۔ سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی گئی ہے جس میں دہلی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے جس کے تحت سابق بی جے پی ایم ایل اے کلدیپ سنگھ سینگر کی عمر قید کی سزا معطل کر کے انہیں ضمانت دی گئی۔ یہ معاملہ 2017 کے اُناؤ ریپ کیس سے متعلق ہے۔ یہ عرضی دو خواتین وکلا انجلی پٹیل اور پوجا شلپکر کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔ درخواست میں دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو منسوخ کرنے کی مانگ کی گئی ہے جس کے ذریعے سینگر کو راحت دی گئی۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں استغاثہ کے ان اہم شواہد کو نظر انداز کیا جو جرائم کی انتہائی سنگینی۔ ملزم کے مجرمانہ رجحان۔ اور طاقت و مالی اثر و رسوخ کے غلط استعمال کی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ملزم سینگر نے عدالتی حراست میں ہونے کے باوجود متاثرہ لڑکی کے والد کے قتل کی سازش رچی تاکہ خاندان کو خاموش کرایا جا سکے اور انصاف کے عمل کو پٹڑی سے اتارا جا سکے۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزم کے اثر و رسوخ اور دھمکی دینے کی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے پہلے ہی مقدمہ کو اتر پردیش کے اُناؤ سے دہلی کے تیس ہزاری کورٹ منتقل کیا تھا تاکہ منصفانہ سماعت ہو سکے اور متاثرہ فریق اور گواہوں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ ہائی کورٹ نے ضمانت دیتے وقت اس عدالتی فیصلے کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جس سے مقدمہ کی منتقلی کا مقصد ہی ختم ہو گیا۔ عرضی میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے جرم کی سنگینی۔ گواہوں کو ڈرانے۔ شواہد سے چھیڑ چھاڑ۔ اور آزادی کے غلط استعمال کے حقیقی خدشات کا درست جائزہ لیے بغیر اور ٹھوس وجوہات درج کیے بغیر ضمانت دے دی۔ درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ریپ اور قتل جیسے سنگین معاملات میں ضمانت دیتے وقت عدالتوں کو غیر معمولی احتیاط برتنی چاہیے۔ خاص طور پر ایسے ملزم کے معاملے میں جس کے مجرمانہ پس منظر ہوں اور جو نظام انصاف کو کمزور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ ہائی کورٹ کا اقدام قائم شدہ قانونی اصولوں کے برخلاف ہے۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ملزم کی آزادی کو متاثرہ اور سماج کے حقوق پر فوقیت نہیں دی جا سکتی۔ خاص طور پر ایسے معاملے میں جہاں ملزم پہلے ہی اپنی آزادی کا غلط استعمال کر چکا ہو۔ گواہوں کو دہشت زدہ کر چکا ہو۔ اور قانون کی بالادستی کو نقصان پہنچا چکا ہو۔ اس لیے انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے۔ عوامی اعتماد بحال کرنے۔ اور یہ یقینی بنانے کے لیے کہ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آئے۔ سپریم کورٹ کی مداخلت ضروری ہے۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ نے بدعنوانی انسداد قانون 1988 کی دفعہ 2(c) کے تحت عوامی خدمتگار کی تعریف کی غلط تشریح کی۔ ملزم جرم کے وقت ایک منتخب ایم ایل اے تھا۔ عرضی کے مطابق اراکین پارلیمنٹ اور اراکین اسمبلی عوامی خود مختار فرائض انجام دیتے ہیں۔ سرکاری مراعات حاصل کرتے ہیں۔ اور سپریم کورٹ کے مسلسل فیصلوں کے مطابق عوامی خدمتگار کی قانونی تعریف میں آتے ہیں۔ اس کے باوجود ہائی کورٹ نے ملزم کو اس زمرے سے خارج کر کے ایک غلط اور ناقابل قبول قانونی تشریح اختیار کی اور اسے بلا وجہ ضمانت کا فائدہ دے دیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس طرح کی غلط تشریح فوجداری نظام انصاف کی بنیادوں کو کمزور کرتی ہے اور عوامی عہدوں پر فائز افراد کی بدعنوانی اور مجرمانہ بدسلوکی کو روکنے کے قانونی مقصد کو نقصان پہنچاتی ہے۔ اس سے قبل خبر دی گئی تھی کہ مرکزی تفتیشی بیورو بھی دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرے گا۔ سی بی آئی نے ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ کے حکم کا جائزہ لینے کے بعد جلد از جلد خصوصی اجازت درخواست دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ جسٹس سبرامنیم پرساد اور جسٹس ہریش ویدیا ناتھن شنکر پر مشتمل بنچ نے سینگر کی سزا معطل کر کے ضمانت دی تھی۔ عدالت نے شرط رکھی کہ وہ 15 لاکھ روپے کا ضمانتی مچلکہ جمع کرائے۔ تاہم وہ فی الحال حراست میں ہی رہے گا کیونکہ متاثرہ لڑکی کے والد کی حراستی موت کے معاملے میں اسے ابھی ضمانت نہیں ملی ہے۔ اس معاملے میں دہلی ہائی کورٹ میں اپیل اور سزا معطلی کی درخواست زیر سماعت ہے۔ اس کیس میں سینگر کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ضمانت دیتے وقت ہائی کورٹ نے ہدایت دی کہ سینگر دہلی میں متاثرہ لڑکی کی رہائش کے 5 کلومیٹر کے دائرے میں داخل نہیں ہوگا۔ اسے دہلی میں ہی رہنا ہوگا اور وہ متاثرہ خاندان کے کسی بھی فرد سے رابطہ نہیں کرے گا۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments