امریکی یونیورسٹی میسا چوسٹس انسٹیٹیوٹ المعروف 'ایم آئی ٹی ' میں ایک بھارتی اسٹوڈنٹ کے غزہ کے موضوع پر تقریر کی اجاز ت نہ ملنے کا واقعہ اس کے دیگر سٹوڈنٹ ساتھیوں کے لیے ہمت کا باعث بن گیا ہے۔ 'اسے کہتے ہیں سب تدبیریں الٹی ہو جانا۔ ' 'ایم آئی ٹی' نے بھارتی اسٹوڈنٹ میگھا ویموری کو اسرائیل کے ساتھ یونیورسٹی کے تعلقات کی مذمت کی تھی۔ مگر' ایم آئی ٹی' نے میگھا ویموری کو ایسے خیالات رکھنے اور ان کا اظہار کرنے پر گریجوایشن کی ڈگری حاصل کرنے سے روک دیا تھا۔ اب میگھا ویموری کانام اپنے ملک بھارت میں فلسطین سے محبت کرنے والے سٹوڈنٹس کے درمیان ہمت کی ایک علامت بن کر گونج رہا ہے۔ بھارت کے سٹوڈنٹس اس واقعے کی وجہ سے کہنے لگے ہیں کہ اس واقعے نے انہیں فلسطین کے لیے کھڑے ہونے کی ترغیب دے دی ہے۔ ہنیں حوصلہ مل گیا ہے۔ یہ پچھلے ہفتے کی بات ہے جب ' ایم آئی ٹی' میں بھارتی سٹوڈنٹس کی کلاس کی صدر ویموری ' ایم آئی ٹی ' میں تقریب سے خطآب کرتے ہوئے کہا ' آج جب ہم اپنی تعلیم مکمل کرکے ڈگری لینے کے لیے بڑھ رہے ہیں تو غزہ کے سٹوڈنٹس کے لیے وہاں اسرائیل نے بمباری کر کے کوئی یونیورسٹی نہیں رہنے دی سب یونیورسٹیوں کو بھی ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے ۔ ہم اسرائیل کے ہاتھوں فلسطین کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کرتے دیکھ رہے ہیں۔' ویموری نے اس موقع پر ' ایم آئی ٹی ' کی پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ' مگر یہ شرم کی بات ہے کہ 'ایم ائی ٹی ' اسرائیل کی ان کوششوں کا حصہ ہے۔' ویموری نے اس امر کا اظہار کرتے ہوئے اپنے گاؤں کے اوپر فلسطینی کیفیہ بھی اوڑھ رکھا تھا تاکہ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کر سکے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے میگھا ویموری کا نام لیے بغیر ایک فوری بیان جاری کی اور اس میں کہا ' کل ڈگری حاصل کرنے کی تقریب میں گریجوایٹ سینیئرز کو شرکت کی اجازت نہیں ہوگی۔ جبکہ ویموری کی اس تقریر کے بعد انہیں کیمپس میں داخلے سے بھی روک دیا گیا۔ تاہم ویموری کو یونیورسٹی کے اس انتہائی رویے کے باعث اپنے ملک کے سٹوڈنٹس کے علاوہ دنیا بھر کے سٹوڈنٹس اور یونیورسٹیوں نے ہمت کرنے کی ایک مثال کے طور پر دیکھا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔ کہ اس نے سخت پابندی کے ماحول میں بھی نہ صرف غزہ میں اسرائیلی جنگ سے ہونے والے تباہی کی مذمت کی بلکہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے بھی آواز بلند کردی ۔ واضح رہے اسرائیل کی غزہ جنگ جو اب ڈیڑھ سال سے اوپر ہو چکی ہے اس کے دوران اسرائیلی فوج نے 54 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو قتل کر دیا ہے۔ جن میں بڑی تعداد فلسطینی بچوں اور عورتوں کی ہے۔ علاوہ ازیں اسرائیلی فوج نے خوراک اور امدادی سامان کی ترسیل بھی غزہ کے جنگ زدہ اور بے گھر لوگوں کے لیے روک رکھی ہے۔ اب غزہ سے باہر حتی کہ امریکہ میں یونورسٹیوں کے سٹوڈنٹس کوبھی اس بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ اس صورت حال نے دنیا بھر کے سٹوڈنٹس کی طرح بھارتی سٹوڈنٹس کو بھی خوب متوجہ کر دیا ہے۔ عام لوگ اور سٹوڈنٹس یہ سوچنے لگے ہیں کہ اب ان کے کیے بھی اس بارے میں خاموش رہنا مشکل ہو گیا ہے۔ انہی میں حیدرآباد میں سریجا ڈونٹیریڈی انگریزی ادب کی ایک سٹوڈنٹس ہیں۔ ان کا کہنا ہے' میگھا ویموری نے جو کچھ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ اس کو سراہا جانا چاہیے۔ اگر لوگ اب بھی فلسطین کے بارے میں نہیں بات کریں گے تو یہ سخت بے انصافی ہوگی۔ ' ادھر میگھا ویموری نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ہے ' میں ہرگز مایوس نہیں ہوں۔ کہ انہیں یونیورسٹی انتظامیہ نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ سٹیج پر جانے کا موقع نہیں دیا۔' میگھا ویموری نے مزید کہا ' میں سمجھتی ہوں ان دو برسوں کے دوران غزہ کے بہت سے سٹوڈنٹس کو بھی اپنی یونیورسٹیوں کے سٹیج پر ہونا چاہیے تھا ۔ انہیں بھی حق ہے کہ وہ چل کر سٹیج تک اتے اپنی ڈگریاں لیتے اور اپنی عملی زندگیوں میں قدم رکھتے ۔ لیکن انہیں تو یہ حق دینے کے بجائے ان کی یونیورسٹیوں کو ہی مسمار کر دیا گیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ غزہ کے سٹوڈنٹس کی بہت بڑی تعداد بمباری سے قتل کر دی گئی ۔ انہیں ان کے گھروں پر بمباری کر کے ملبے میں دبا دیا گیا۔ جو بچ گئے وہ یتہم ہوگئے ۔ بے سہارا کر دیے گئے اور بے گھر کر دیے گئے۔ اصل افسوس تو ان پر بیتنے والے حالات کا ہے۔ ' اسی سلسلے کی کڑی یہ سمجھتی ہوں کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مجھے ایسے جرم کی سزا دی ہے جو قانون کے مطابق جرم ہے نہیں۔ انتظامیہ نے یہ سزا دے کر اپنے اصل کردار سے تجاوز کیا ہے۔ میرے کسی اقدام سے یونیوسٹی کی کسی بھی انتظامی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی تھی۔ مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے ایسا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ سہ اسرائیل کے ساتھ کھڑی ہے۔یہ افسوسناک بات ہے۔ کہ اس سے غزہ میں نسل کشی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ دہلی میں تاریخ کی سٹوڈنٹ اکریتی چودھری اور ھمانشو ٹھاکر نے انہوں نے اپنے فارغ التحصیل ہونے کی تقریب کے دوران فلسطین کے حق کے لیے آواڈ اٹھائی ہے۔ یہ بھی میگھا اور ایم آئی ٹی کے دوسرے سٹوڈنٹس سے متاثر ہوکر آواز اٹھانے والوں میں شامل ہو گئی ہیں۔ اکریتی چودھری نے کہا ' سیاسی شعور کی حامل ہونے کے ناطے ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطین کے حالات پر بات کریں ۔ اور جبر اور جنگی جرائم کی مذمت کی جانی چاہیے۔ فلسطین کاز کے لیے بولنا فخر اور خوشی دیتا ہے۔ ' ان سٹوڈنٹس کے بقول' ایم آئی ٹی' نے فلسطین پر بات کرنے سے روک کر دنیا بھر کے سٹوڈنٹس کو اس پر مجبور کیا ہے کہ وہ اس انسانی المیے پر بات کریں. اس وقعے سے آواز اٹھانے والوں کی آوازوں کو طاقت ملے گی۔'
Source: social media
ہارورڈ میں غیر ملکی طلباء پر ٹرمپ کی پابندی: جج کی جانب سے عارضی معطلی
نیوزی لینڈ: پارلیمنٹ میں ہاکا کرنے والے 3 ماوری ارکان معطل
زمبابوے میں 50 ہاتھیوں کے شکار کی منظوری، گوشت عوام میں تقسیم ہوگا
حجاج کرام طوافِ زیارت ادا کر رہے ہیں ... مسجد حرام کے تمام گوشے بھر گئے
غزہ کی پٹی میں چار اسرائیلی فوجی ہلاک ... ایک زخمی فوجی اغوا کرنے کی کوشش
چیٹ جی پی ٹی یا محبوبہ؟ نوجوان سے پیار محبت کی باتیں، تصویر وائرل
حجاج کرام طوافِ زیارت ادا کر رہے ہیں ... مسجد حرام کے تمام گوشے بھر گئے
حجاج کرام کی منیٰ میں جمرہ کبریٰ کی ادائیگی، مناسک حج کے اہم مرحلے کا آغاز
سعودی عرب سمیت دیگر عرب اور متحدہ عرب امارات, یورپی ممالک میں میں نمازِعیدالاضحیٰ کے اجتماعات
ایلون مسک اور ٹرمپ کی دوستی دشمنی میں بدل گئی، سخت الزامات