اپنے سات بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے جدوجہد کرنے والی ایک فلسطینی ماں اعتماد القنوع خود کو لاوارث محسوس کرتی ہیں۔ انہیں بعض اوقات لگتا ہے کہ ایک سال کی جنگ جس نے غزہ کو ایک فاقہ زدہ اور بمباری سے تباہ شدہ بنجر زمین میں تبدیل کر دیا ہے، اس کے بعد ان کے خاندان کے مصائب کو ختم کرنے کا بہترین طریقہ موت ہے۔ "انہیں ایٹم بم گرانے اور اسے ختم کرنے دیں۔ ہم یہ زندگی نہیں چاہتے جو ہم جی رہے ہیں۔ ہم آہستہ آہستہ مر رہے ہیں۔ ہم پر رحم کریں۔ ان بچوں کو دیکھیں۔" تین لڑکوں اور چار لڑکیوں کی ماں نے کہا جن کی عمریں آٹھ سے اٹھارہ سال کے درمیان ہیں۔ اپنے قصبے دیر البلح میں خوراک کے لیے بے چین بچے ایک خیراتی مقام پر خالی برتنوں کے ساتھ جمع ہیں۔ امدادی کارکنان ایک بڑے برتن میں سے مسور کی دال کا شوربہ تقسیم کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھوک مٹانے اور بڑے پیمانے پر خوف و ہراس کو کم کرنے کے لئے قطعی ناکافی ہے۔ القنوع کہتی ہیں کہ ان کے خاندان کو اسرائیلی فضائی حملوں کا سامنا ہے جس میں ایک طرف دسیوں ہزار لوگ ہلاک اور غزہ کا بڑا حصہ منہدم ہو گیا ہے اور دوسری طرف لوگ بھوکوں مر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، "کوئی ہماری طرف نہیں دیکھ رہا، کوئی ہماری پرواہ نہیں کرتا۔ میں عرب ممالک سے کہتی ہوں کہ وہ ہمارا ساتھ دیں، کم از کم سرحدیں ہی کھول دیں تاکہ خوراک اور سامان ہمارے بچوں تک پہنچ سکے۔ وہ سب جھوٹے ہیں، وہ عوام سے جھوٹ بول رہے ہیں۔ امریکہ ہمارے خلاف اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے، وہ سب ہمارے خلاف متحد ہیں۔" انسانی امداد لے جانے والے ٹرکوں کو پیر کو ایریز راہداری کے ذریعے شمالی غزہ جانے کی اجازت دی گئی۔ امریکہ اس ہفتے اس بارے میں فیصلہ کرے گا کہ آیا اسرائیل نے غزہ میں انسانی صورتِ حال کو بہتر بنانے کی طرف پیش رفت کی ہے یا نہیں اور یہ کہ واشنگٹن اس پر کیا ردِ عمل دے گا۔ قحط آنے والا ہے غذائی تحفظ کے عالمی ماہرین نے اس بات کا "قوی امکان" ظاہر کیا کہ اسرائیل چونکہ شمالی غزہ کے کچھ حصوں میں مزاحمت کاروں کے خلاف فوجی کارروائی کر رہا ہے تو وہاں قحط آنے والا ہے۔ قحط کے انتباہ کے جواب میں اقوامِ متحدہ کی امدادی ایجنسی انروا کے سربراہ فلپ لازارینی نے اسرائیل پر بھوک کو فلسطینیوں کے خلاف بطورِ ہتھیار استعمال کرنے کا الزام لگایا۔ فلسطینی شہری امور کی اسرائیلی فوجی ایجنسی سی او جی اے ٹی نے اتوار کے روز گذشتہ چھ ماہ کے دوران اسرائیل کی انسانی ہمدردی کی کوششوں کی ایک فہرست شائع کی۔ چونکہ موسمِ سرما قریب آ رہا ہے تو اس میں غزہ کے رہائشیوں کی مدد کے لیے تفصیلی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے سفیر ڈینی ڈینن نے حماس پر امداد سامان پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا تھا۔ حماس ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔ غزہ کے باشندے کہتے ہیں کہ بھوک کے علاوہ ان کے پاس جانے کو کوئی جگہ محفوظ نہیں ہے جو بار بار انخلاء کے بعد خیمہ کیمپوں میں رہائش پذیر ہیں جب تک کہ انہیں مزید حملوں سے بچنے کے لیے دوبارہ منتقل ہونے کی ضرورت نہ ہو۔ بعض افراد کا خیال ہے کہ ان کی حالت 1948 کے "نقبہ" سے بھی بدتر ہے جب اسرائیل کی ریاست کی پیدائش کے وقت جنگ میں لاکھوں فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ غزہ کے ایک بے گھر شخص محمد ابو قرہ نے کہا، "حالات پہلے اس سے بہتر تھے جن کا ہمیں اب سامنا ہے۔ اس وقت ہمیں کوئی تحفظ حاصل نہیں اور نہ ہی کوئی جگہ ہے۔"
Source: Social Media
غزہ پناہ گزین کیمپ میں خون جما دینے والی سردی، 3 کم سن بچے ٹھٹھرکرجاں بحق
بشار الاسد کی اہلیہ کے جان لیوا بیماری میں مبتلا ہونیکا انکشاف، بچنے کے چانسز 50 فیصد
غزہ میں فلسطینی ٹی وی چینل کی گاڑی پر اسرائیلی فوج کا حملہ، 5 صحافی شہید
موزمبیق میں پرتشدد مظاہرے، جیل توڑ کر 1500 قیدی فرار، 33 ہلاک
جاپان ائیرلائنز کے سسٹم پرسائبر حملے سے متعدد پروازیں متاثر ، سیکڑوں مسافر پریشان
جنوبی کوریا: قائم مقام صدر کیخلاف مواخذے کی تحریک جمع
سانحہ 9 مئی: فوجی عدالتوں نے عمران خان کے بھانجے سمیت مزید 60 مجرموں کو سزائیں سنا دیں
قطر کا 13 برس بعد شام میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا اعلان
ہم نے ابھی شام میں اپنے اڈوں کی قسمت کا فیصلہ نہیں کیا: روس
تحریر الشام پر سے پابندیاں اٹھانا قبل از وقت ہے: نیدر لینڈز