National

بھوپال گیس سانحہ کی برسی پر متعدد تنظیموں کا مظاہرہ

بھوپال گیس سانحہ کی برسی پر متعدد تنظیموں کا مظاہرہ

بھوپال،3دسمبر: دنیا کے بدترین صنعتی سانحہ بھوپال گیس سانحہ کی 40 ویں برسی پر آج مرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کئی تقریبات کے درمیان کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی) کے کارکنوں نے معاوضے راحت کا مطالبہ کیا۔ گیس کے متاثرین نے یہاں احتجاج کیا۔ کئی سماجی تنظیموں نے بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے آواز اٹھائی۔ سی پی آئی کی طرف سے جاری کردہ ریلیز کے مطابق پارٹی کارکنوں، مزدوروں اور متاثرہ لوگوں نے مقامی اتوارہ علاقہ میں مظاہرہ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ گیس متاثرین کے مفاد میں معاوضہ اور راحت فراہم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرے۔ مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پارٹی کے ریاستی شریک سکریٹری شیلندر شیلی نے کہا کہ بھوپال گیس سانحہ دنیا کی معلوم تاریخ کا واحد سانحہ ہے جس میں حکومت نے اپنے ہی لوگوں کو دھوکہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پی آئی نے ہمیشہ پارلیمنٹ سے لے کر سڑکوں تک بھوپال کے گیس متاثرین کے مفاد میں آواز اٹھائی ہے۔ مسٹر شیلی نے کہا کہ مارچ 2023 میں سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ہدایات کے مطابق حکومت کو گیس متاثرین کو معاوضہ دینا چاہیے۔ اس کے ساتھ متاثرین کی امداد، باز آبادکاری اور روزگار کے مطالبات بھی پورے کیے جائیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہر گیس متاثر کو کم از کم 5 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے۔ پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ گیس سے متاثرہ ہر بے سہارا کو 5000 روپے ماہانہ پنشن دی جائے اور اس کے لیے دوبارہ سروے کرایا جائے۔ بھوپال گیس سانحہ کی ایک موثر یادگار تعمیر کی جائے اور گیس سانحہ کی دستاویز کے لیے ایک باوقار میوزیم بھی قائم کیا جائے۔ سی پی آئی لیڈر مسٹرشیلی نے کہا کہ جب شیوراج سنگھ چوہان مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے اس وقت کے وزیر اعظم منموہن سنگھ کو خط لکھ کر بھوپال کے ہر گیس متاثرین کو 5 لاکھ روپے معاوضہ دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ اب جبکہ مسٹر چوہان خود ایک مرکزی وزیر ہیں اور مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے، یہ ان کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ حکومت سے اس مسئلہ پر مطالبات کریں۔ گیس سانحہ کی برسی کے موقع پر کئی تنظیموں کے نمائندوں نے یہاں مختلف مقامات پر مظاہرے کیے اور ملٹی نیشنل کمپنیوں اور سرمایہ داری کے نظریے کے خلاف نعرے لگائے۔ ان تنظیموں نے امریکی حکومت کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وہاں کی حکومتوں نے ان چار دہائیوں کے دوران ہمیشہ گیس کے سانحے کے مجرموں کو بچانے کے لیے کام کیا۔ بھوپال گیس وکٹمز وومن اسٹیشنری ایمپلائز یونین کی رشیدہ بی نے کہا کہ رونالڈ ریگن سے لے کر براک اوبامہ تک امریکی صدور نے ہمیشہ اس گیس سانحہ کی ذمہ دار کمپنی یونین کاربائیڈ اور ڈاؤ کیمیکلز کے خلاف ہندوستان میں مقدمہ چلانے کی مخالفت کی۔ اس کے ساتھ انہوں نے امید ظاہر کی کہ امریکہ کے نئے صدر کی انتظامیہ گیس متاثرین کے مطالبات پر غور کرنے کے بعد اقدامات کرے گی۔ گیس سے متاثرہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ یونین کاربائیڈ کمپنی کو ڈاؤ کیمیکلز میں ضم کر دیا گیا ہے اور ہندوستان میں ڈاؤ کیمیکلز کا کاروبار بڑھ رہا ہے۔ گیس متاثرین کے درمیان کام کرنے والی سماجی کارکن رچنا ڈھینگرا کا کہنا ہے کہ ڈاؤ کیمیکلز کو گیس سے متاثرہ علاقے کے زیر زمین پانی کو صاف کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ یہ کمپنی گزشتہ دو برسوں سے یونین کاربائیڈ کے ہندوستان میں اثاثے بھی فروخت کر رہی ہے۔ سب سے پہلے اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ گیس متاثرین کو مناسب معاوضہ ملے۔ یاد رہے 2 اور 3 دسمبر 1984 کی درمیانی رات کو بھوپال میں واقع امریکی کمپنی کی یونین کاربائیڈ فیکٹری سے بڑی مقدار میں زہریلی گیس میتھائل آئسو سائنیٹ ( ایم آئی سی) کا اخراج ہوا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں افراد لقمہ اجل اور لاکھوں شہری متاثر ہوگئے تھے۔ چار دہائیاں گزرنے کے بعد بھی گیس کے متاثرین کئی سنگین امراض میں مبتلا ہیں۔ کیڑے مار دوا بنانے والی اس فیکٹری سے زہریلی گیس کے اخراج کا کلیدی ملزم امریکی شہری وارن اینڈرسن کو سمجھا جاتا تھا۔ ان کے خلاف ہندوستانی عدالتوں میں مقدمات چلائے گئے لیکن انہیں ہندوستان کے حوالے نہ کیا جا سکا اور وہ چند سال قبل انتقال کر گئے تھے۔ ہزاروں گیس متاثرین میں معاوضے کے طور پر کئی کروڑ روپے کی رقم تقسیم کرکے علاج اور بحالی کی اسکیمیں بھی نافذ کی گئیں لیکن گیس متاثرین کی مدد کے لیے کام کرنے والے ادارے اسے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس سنگین مجرمانہ غفلت میں ملوث افراد کا کوئی ثانی نہیں اور کسی ذمہ دار افراد کو سزا نہیں دی گئی ۔

Source: uni urdu news service

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments