ایک ایرانی عہدیدار نے "رائٹرز" کو انکشاف کیا ہے کہ یورینیم کے ذخیرے کا حجم، اسے ملک سے باہر بھیجنے کا طریقہ کار اور سینٹری فیوجز کی تعداد ابھی تک زیر بحث موضوعات ہیں۔ ایرانی عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ تہران افزودہ یورینیم کو روس یا یہاں تک کہ امریکہ منتقل کرنے کے لیے کھلا ہے۔ تاہم انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایران کا افزودگی کا حق ایک ریڈ لائن ہے جس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ یاد رہے واشنگٹن نے اپنے وزیر خارجہ کے ذریعے ایک معاہدے تک پہنچنے کے مقصد سے نئی شرائط کی فہرست پیش کی تھی۔ امریکہ کی شرائط ایرانیوں کو پسند نہیں آئیں کیونکہ یہ تہران کی جانب سے بار بار بیان کی گئی ریڈ لائنز میں شامل ہیں۔ ایران نے کہا ہے کہ اس کا افزودگی کا حق ناقابل گفت و شنید ہے۔ تاہم تین ایرانی عہدیداروں نے یہ بھی کہا ہے کہ یورینیم کے ذخیرے کا حجم، اسے ملک سے باہر بھیجنا اور سینٹری فیوجز کی تعداد زیر بحث امور ہیں۔ تمام ذرائع، جن میں تین ایرانی عہدیدار بھی شامل ہیں، نے تصدیق کی کہ اپریل میں ہونے والے مذاکرات کے دور میں زیر بحث تجاویز کے تحت ایران افزودگی کی سطح کو جامع مشترکہ ایکشن پلان کے مطابق 3.67 فیصد پر محدود کر دے گا۔ ایرانی ذرائع نے مزید کہا ہے کہ تہران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کو اپنے ایٹمی مقامات تک وسیع رسائی دینے کے لیے بھی کھلا ہے۔ ذرائع نے وضاحت کی ہے کہ تجاویز کا مقصد تہران کے ایٹمی انفراسٹرکچر کو مکمل طور پر ختم کرنا نہیں ہےجیسا کہ اسرائیل اور بعض امریکی عہدیدار ایسا ہی چاہتے ہیں بلکہ اس کا مقصد یورینیم کی افزودگی پر مستقل پابندیاں عائد کرنا ہے تاکہ کسی بھی حد سے تجاوز کو روکا جا سکے۔ امریکہ کی جانبے سے پیش شرائط میں سے پہلی شرط یہ ہے کہ ایران داخلی طور پر یورینیم کی افزودگی سے دور رہے اور صرف بیرون ملک سے یورینیم درآمد پر اکتفا کرے، روبیو کے مطابق 3.67 فیصد کی شرح سے افزودگی کی صلاحیت کا مطلب ہے کہ چند ہفتوں میں نوے فیصد کی اعلیٰ شرح تک رسائی ممکن ہوگی۔ 90 فیصد کی شرح ایٹمی ہتھیاروں کے لیے تیاری کے لیے ضروری ہے۔ تین ایرانی ذرائع میں سے ایک، جو ایک اعلیٰ سیکورٹی عہدیدار ہیں، نے بتایا ہے کہ ایک اور ممکنہ درمیانی حل یہ ہے کہ ایران پانچ ہزار سینٹری فیوجز کے ذریعے کم از کم افزودگی کو برقرار رکھے اور باقی افزودہ یورینیم درآمد کرے۔ تین ایرانی عہدیداروں نے بتایا کہ افزودگی پر پابندیاں عائد کرنے کے بدلے میں تہران نے یہ قطعی ضمانتیں طلب کی ہیں کہ ٹرمپ دوبارہ ایٹمی معاہدے سے دستبردار نہیں ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی جانب سے عائد کردہ ریڈ لائنز میں ملک میں ذخیرہ شدہ افزودہ یورینیم کی مقدار کو 2015 کے معاہدے میں طے شدہ سطح سے کم کرنا شامل ہے۔ تہران سے قریبی تعلق رکھنے والے ایک اعلیٰ علاقائی ذریعے نے بتایا ہے کہ ایرانی یورینیم کے ذخائر کے بارے میں جاری بحث اس بات پر مرکوز ہے کہ کیا ایران اس کا کچھ حصہ، کم شدہ شکل میں، ملک کے اندر رکھے گا ۔ دوسرا حصہ بیرون ملک ممکنہ طور پر روس کو بھیجے گا۔ ذریعے نے بتایا کہ ایران نے امریکہ کو افزودہ یورینیم فروخت کرنے کا خیال پیش کیا ہے۔ امریکی کی دوسری شرط طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری روکنا ہے۔ اس بنیاد پر کہ ان کے وجود کا بنیادی مقصد جوہری ہتھیاروں کا حصول ہے۔ ایک اور نازک اختلافی نقطہ ایران کی بیلسٹک میزائل بنانے کی صلاحیت سے متعلق ہے۔ واشنگٹن اور اسرائیل کا کہنا ہے کہ اسے میزائل بنانا بند کر دینا چاہیے۔ دوسری طرف تہران کا کہنا ہے کہ اسے اپنا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ایک ایرانی عہدیدار نے اس سے قبل رائٹرز کو بتایا تھا کہ ایران اپنے میزائل پروگرام کے حوالے سے 2015 کے معاہدے کے تحت طے شدہ حدود سے آگے کوئی اور رعایت نہیں دے گا۔ صرف حسن نیت کے اشارے کے طور پر جوہری وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل نہ بنانے کی پیشکش کرے گا۔ ایک علاقائی سکیورٹی عہدیدار نے بتایا ہے کہ واشنگٹن بیلسٹک میزائل پروگرام کو مذاکرات میں شامل کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے لیکن تہران ابھی تک اس پر کسی بھی بحث سے انکار کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مسئلہ یہ ہے کہ میزائل کے مسئلے کو حل کیے بغیر ٹرمپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ نیا معاہدہ JCPOA سے آگے ہے۔ حوثیوں کی حمایت بند کریں امریکی پابندیوں کی فہرست میں تہران کا خطے میں اپنے پراکسیوں بالخصوص حوثیوں کی حمایت بند کرنا بھی شامل ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے گزشتہ ماہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کو تہران کے ساتھ فوری طور پر مذاکرات میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے سے حیران کر دیا تھا۔ آٹھ ذرائع نے بتایا کہ اب ان مذاکرات کی کامیابی کا انحصار ایران کو ایٹمی بم بنانے سے روکنے کے لیے اہم رعایتیں حاصل کرنے پر ہے۔ اپریل میں امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے تبدیلی نیتن یاہو کے لیے ایک جھٹکے کے طور پر سامنے آئی تو انہوں نے ایرانی ایٹمی تنصیبات پر فوجی حملوں کے لیے ٹرمپ کی حمایت حاصل کرنے کے لیے واشنگٹن کا سفر کیا۔ اس معاملے سے واقف چار ذرائع نے رائٹرز کو بتایا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کو وائٹ ہاؤس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے معلوم ہوا کہ ایران کے ساتھ امریکی مذاکرات چند دنوں میں شروع ہو جائیں گے۔ ایک سینئر ایرانی سیکورٹی عہدیدار کے مطابق تہران کو اسرائیلی حملے پر گہری تشویش ہے چاہے کوئی سمجھوتہ ہو یا نہ ہو۔ اس کے باوجود صرف تین ہفتوں میں امریکہ اور ایران نے مذاکرات کے تین دور کیے ہیں جن کا مقصد تہران کو پابندیوں میں نرمی کے بدلے ایٹمی ہتھیار تیار کرنے سے روکنا ہے۔ ایک چوتھا دور جلد ہی روم میں ہونے کی توقع ہے۔ اس حوالے سے رائٹرز نے مذاکرات میں شامل تمام فریقوں کے حکام اور سفارت کاروں سے بات کی جنہوں نے بات چیت کی پہلے غیر مطبوعہ تفصیلات فراہم کیں۔ تمام ذرائع نے جاری مذاکرات کی حساسیت کے پیش نظر نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔ آٹھ ذرائع نے بتایا کہ اس وقت زیر بحث ابتدائی فریم ورک 2015 کے مشترکہ جامع پلان آف ایکشن کے جوہر کو برقرار رکھ رہا ہے۔ یہ وہ جوہری معاہدہ تھا جس سے امریکہ ٹرمپ کی پہلی میعاد کے دوران 2018 میں نکل گیا تھا۔ نئے معاہدے میں اپنے پیشرو معاہدے سے بنیاد پرست اختلافات کو نمایاں نہیں کیا جاسکتا۔ پرانے معاہدے کو ٹرمپ نے تاریخ کا بدترین قرار دیا تھا۔ تمام ذرائع نے کہا ہے کہ اس کی مدت کو 25 سال تک بڑھایا جائے گا۔ تصدیق کے طریقہ کار کو سخت کیا جائے گا اور نام نہاد "سن سیٹ کلاز" کو بڑھایا جائے گا جس سے ایران کے جوہری پروگرام کے پہلوؤں کو معطل کیا جائے گا لیکن اسے مکمل طور پر ختم نہیں کیا جائے گا۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ زیر بحث شرائط کے تحت ایران اپنے یورینیم کے ذخیرے اور سینٹری فیوجز کی اقسام کو محدود کرے گا اور IAEA کی بے مثال نگرانی کے تحت اپنے 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخیرے کو کم کرے گا، برآمد کرے گا یا ذخیرہ کرے گا۔ تاہم اس حوالے سے کئی ریڈ لائنز ابھر رہی ہیں کہ مذاکرات کاروں کو کسی معاہدے تک پہنچنے اور مستقبل میں فوجی کارروائی سے بچنے کے لیے ان کو عبور کرنا پڑے گا۔ ان خدشات میں سب سے اہم ایران کی یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت ہے جسے واشنگٹن اور اسرائیل مکمل طور پر روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ تہران بوشہر پلانٹ کے لیے درآمد شدہ یورینیم پر انحصار کرتا ہے جو خلیج کے ساحل پر واقع اس کی واحد آپریشنل جوہری تنصیب ہے۔ نیتن یاہو یورینیم کی "صفر افزودگی" کا مطالبہ کر رہے ہیں اور ایک ایسے معاہدے کا مطالبہ کر رہے ہیں جو ایران کے جوہری ڈھانچے کو ختم کر دے گا۔ لیبیا کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا تھا۔
Source: social media
شام پر صیہونیوں کے اسرائیل کے حملے کھلی جارحیت ہے:حزب اللہ لبنان
حساس موقع پر امریکی وزیر دفاع کا تل ابیب کا دورہ متوقع
بحر ہند اور بحرالکاہل میں چین کا رویہ جارحانہ،تائیوان پر ممکنہ محاصرہ خارج از امکان نہیں
امریکی مداخلت اور خود مختاری پر سمجھوتا قبول نہیں، میکسیکو کی صدر کا ٹرمپ کو دوٹوک جواب
القسام بریگیڈز نے دو اسرائیلی دھماکوں میں بچ جانے والے زخمی یرغمالی کی ویڈیو جاری کردی
"دل میں اکثر کسی کو مارنے کی خواہش ہوتی ہے": ہمیشہ پُر سکون نظر آنے والے ولادیمیر پوتین
برطانوی پولیس نے ’دہشت گردی کے شبے میں‘ پانچ افراد گرفتار کر لیے
پاکستان کا 450 کلومیٹر رینج کے حامل میزائل سسٹم کا کامیاب تجربہ
ٹرمپ نے چین کی کم مالیت والی ’بے وقعت‘ درآمدی اشیا پر بھی ٹیکس عائد کردیا
جرمنی میں دائیں بازو کی تنظیم کو سرکاری طور پر انتہاپسند قرار دیدیا گیا
صرف 3 دن؟ زیلنسکی نے پیوٹن کی امن پیشکش کو مسترد کر دیا
ٹک ٹاک کے ڈیٹا تک غیر قانونی رسائی، چین کا سخت ردعمل سامنے آگیا
یوکرین جنگ کے خاتمے کیلئے امریکا کا روس پر نئی پابندیوں کا منصوبہ
پاکستان نے اپنی بندرگاہ پر انڈین پرچم بردار جہازوں کا داخلہ بند کر دیا