International

اسرائیل: غزہ میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار مسرت کرنے والا اسرائیلی صحافی گرفتار

اسرائیل: غزہ میں پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر اظہار مسرت کرنے والا اسرائیلی صحافی گرفتار

اسرائیل کی ایک عدالت نے ایک اسرائیلی صحافی کی حراست میں توسیع کی ہے جس نے پچھلے دنوں غزہ میں اسرائیل کے پانچ فوجیوں کی ہلاکت پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' پر پوسٹ تحریر کی تھی اور اس نے ان فوجیوں کے مرنے کے بعد کہا تھا کہ دنیا اب بہتر جگہ ہے یعنی 'خس کم جہاں پاک'۔ اسرائیلی صحافی 'اسرائیل فرے' اس سے پہلے بھی غزہ میں اسرائیلی فوج کی جنگ کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ تل ابیب میں مجسٹریٹ کی عدالت نے ان کی حراست میں اس الزام کی وجہ سے توسیع کر دی ہے کہ وہ سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹس کے ذریعے اشتعال انگیزی کرتے ہیں اور دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ اسرائیلی صحافی کی طرف سے اس خوشی کا اظہار پانچ فوجیوں کی تازہ ہلاکت کے بارے میں کیا گیا جو ایک دھماکے میں مارے گئے تھے۔ صحافی نے اہنی پوسٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ ' آج کی صبح دنیا ان پانچ نوجوان فوجیوں کے مرنے سے بہتر ہوگئی ہے۔ جنہوں نے انسانیت کے خلاف انتہائی ظالمانہ جرائم کا ارتکاب کیا تھا۔' پانچ فوجیوں کو غزہ میں حماس کے جنگجوؤں نے ایک جھڑپ کے دوران شمالی غزہ کے علاقے میں اسی ہفتے میں ہلاک کر دیا تھا۔ اسرائیلی صحافی نے جہاں ان پانچ اسرائیلی فوجیوں کے مرنے پر خوشی کا اظہار کیا وہیں اس نے غزہ کے ایک ننھے بچے کو 'انیستھیزیا' دیے بغیر اس کی سرجری کیے جانے پر اور غزہ میں ایک بچی کے بھوک سے مر جانے پر انتہائی دکھ کا اظہار کیا۔ اس اظہار رنجیدگی کے لیے کی گئی اپنی پوسٹ میں اسرائیلی صحافی نے یہ بھی لکھا 'کیا یہ ابھی بھی کافی نہیں ہے۔ ان کا یہ ہر اسرائیلی ماں سے مطالبہ ہے کہ وہ غزہ سے اپنے بیٹے کی لاش وصول کرنے کی قطار میں نہ لگے جو وہاں ایک مجرمانہ جنگ لڑ رہا ہے بلکہ اس مجرمانہ جنگ سے انکار کر دے۔' اس اسرائیلی صحافی کو ماہ مارچ میں بھی اس کی اسرائیلی فوج اور جنگ کے خلاف پوسٹوں پر پوچھ گچھ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کیونکہ اس کی پوسٹیں اسرائیلی فوج کے مطابق فلسطینی پوسٹوں کی حمایت اور فلسطینیوں کی دہشت گردی کی حمایت پر مبنی تھیں۔ وہ اپنے پوسٹوں میں یہ بھی لکھ چکے ہیں کہ ایک فلسطینی جو اسرائیلی فوجی کو زخمی کرتا ہے یا یہودی آبادکاروں کو مغربی کنارے میں نشانہ بناتا ہے۔ اس کا یہ فعل دہشت گردی نہیں ہے نہ ہی یہ دہشت گردانہ حملہ ہے۔ بلکہ وہ ایک ہیرو ہے جو قابضین کے خلاف اور انصاف و آزادی کے لیے لڑ رہا ہے۔ یاد رہے دسمبر 2022 میں بھی اسی اسرائیلی صحافی نے یہ واضح لفظوں میں لکھا تھا کہ فوجیوں کو نشانہ بنانا دہشت گردی نہیں ہے بلکہ یہ کام کرنے والے فلسطینی ہیرو ہیں۔ تاہم 16 اکتوبر 2023 کو ایک صحافی اسرائیلی فوج اور سکیورٹی اداروں سے چھپنے کے لیے غائب ہوگیا۔ اس دوران اس کے گھر پر اسرائیل کے انتہا پسند یہودیوں نے ایک ہجوم کی شکل میں حملہ کیا اور فلسطینیوں کی حمایت میں اس کے بولنے پر اپنا ردعمل دکھایا۔ جمعرات کے روز اس نے اسرائیلی اخبار 'ہاریٹز' سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنا سر نہیں جھکائے گا۔ خواہ اس پر کتنا ہی ظلم کیا جائے۔ ہم پہلے ہی بہت زیادہ مصائب دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے خون اور آنسو دیکھے ہیں۔ اس لیے اب غزہ کو آزادی ملنی چاہیے۔' اسرائیلی میڈیا رپورٹس کے مطابق جج رویت پیلگ بار ڈیان نے حکم دیا کہ اس اسرائیلی صحافی کے ریمارکس عوامی جذبات کے خلاف جارحانہ ہیں اور تکلیف دہ ہیں۔ جج نے اس سے پوچھا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ملکی دفاع کے لیے جانیں دینے والے فوجیوں کی ہلاکت کو کوئی اچھا کہے۔ اس خاتون جج نے مزید کہا صحافی کی حراست میں اضافہ ضروری ہے تاکہ اس سے تحقیقات ہو سکیں اور یہ کہتے ہوئے ضمانت پر رہائی دینے سے انکار کر دیا۔ صحافیوں کے حقوق کے لیے قائم 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' نے اس صحافی کی حراست کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ بات اس امر کی نشاندہی ہے کہ اسرائیلی حکام آزادی اظہار کے خلاف اپنی عدم برداشت بڑھاتے جا رہے ہیں اور یہ عمل اکتوبر 2023 سے جاری ہے۔ 'کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس' کی ریجنل ڈائریکٹر سارہ نے اسرائیلی صحافی کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔ نیز ان تمام فلسطینی صحافیوں کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا جنہیں اسرائیلی فوج و حکام نے گرفتار کر رکھا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے خلاف جاری کریک ڈاؤن اور ان کی آوازوں کو دبانا بند کیا جائے۔

Source: social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments