International

امریکی عدالت نے حکومت کو نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز سے اعتراف جرم کا معاہدہ کرنے سے روک دیا

امریکی عدالت نے حکومت کو نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز سے اعتراف جرم کا معاہدہ کرنے سے روک دیا

واشنگٹن کی ایک عدالت نے حکومت کو نائن الیون کے مبینہ منصوبہ ساز سے اعتراف جرم کا معاہدہ کرنے سے روک دیا۔ گذشتہ برس موسم گرما میں خالد شیخ محمد اور دو دیگر ملزمان نے امریکی حکومت سے ایک معاہدے کے تحت اپنے اوپر عائد کردہ الزامات کا اعتراف کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اس معاہدے کے باعث شاید یہ مبینہ ماسٹر مائنڈ سزائے موت سے بچ جاتے اور اس کے بجائے انھیں عمرقید کی سزا سُنا دی جاتی۔ تاہم اس کے بعد عدالت میں دائر کی گئی ایک درخواست میں امریکی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اگر ان ملزمان کی درخواستیں (پری ٹرائل معاہدے کے تحت دائر کردہ درخواستیں) منظور کر لی گئیں تو اس سے ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ تین ججز پر مشتمل پینل نے کہا کہ انھیں اس کیس پر غور کرنے اور کارروائی کو روکنے کے لیے مزید وقت درکار ہے، تاہم انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس تاخیر کو ’کسی بھی صورت مقدمے کی اہلیت کے حوالے سے فیصلہ تصور نہ کیا جائے۔‘ عدالت نے اس معاہدے کو دو ایک ووٹ سے مسترد کر دیا۔ بینچ میں شامل تیسرے جج نے رابرٹ ولکنز نے فیصلے سے اختلاف کیا ہے۔ خالد شیخ محمد 2003 سے گوانتاناموبے میں قید ہیں۔ وہ 11 ستمبر 2001 کی تاریخ اور منگل کا دن تھا جب خودکش حملہ آوروں نے چار امریکی مسافر بردار طیارے اغوا کر کے انھیں نیویارک اور واشنگٹن میں اہم مقامات سے ٹکرانے کے منصوبے پر عمل کیا۔ ان میں سے تین طیارے تو اپنے مقررہ اہداف تک پہنچنے میں کامیاب رہے جبکہ ایک ہدف تک پہنچنے سے قبل ہی گر کر تباہ ہو گیا۔ ان حملوں کو نائن الیون حملوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے اور ان میں تین ہزار کے قریب افراد مارے گئے اور یہ حملے نہ صرف امریکیوں کے لیے بلکہ پوری دنیا کے لیے 21ویں صدی کے اذیت ناک ترین واقعات میں ایک قرار دیے جاتے ہیں۔ امریکی عدالت نے جس معاہدے کو کالعدم قرار دیا ہے اس کے تحت متاثرین کے اہل خانہ کو خالد شیخ محدم سے سوالات کرنے کی اجازت دی گئی تھی اور پھر وہ ایمانداری سے ان جواب دینے کا پابند تھا۔ 9/11 کے متاثرین کے اہل خانہ کے اس معاہدے پر منقسم تھے۔ کچھ لوگوں نے اس مقدمے کو انصاف اور سچائی کے راستے کی جانب ایک قدم قرار دیا جب کہ دوسروں نے اسے ایک تکلیف دہ مقدمے کے خاتمے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔ خالد شیخ محمد گرفتاری کے بعد سے اس متنازع کیس میں مرکزی شخصیت رہے ہیں۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق ملزمان کے ساتھ معاہدے کا پہلی دفعہ ذکر پراسیکیوٹرز یعنی استغاثہ کی جانب سے نائن الیون حملوں کے متاثرین کے خاندانوں کو بھیجے گئے خط میں کیا گیا تھا۔ چیف پراسیکیوٹر ایرون رَگ نے اپنے خط میں لکھا تھا کہ ’سزائے موت کو ممکنہ سزا کے طور پر ہٹانے کے بدلے میں تینوں ملزمان نے چارج شیٹ میں درج 2,976 افراد کے قتل سمیت تمام الزامات کا اعتراف کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔‘ خالد شیخ محمد اور دیگر دو ملزمان کے ساتھ اس معاہدے کی شرائط کے بارے میں مکمل تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں تھیں لیکن ہم یہ جانتے ہیں کہ اس ڈیل کے نتیجے میں وہ سزائے موت کے مقدمے سے بچ سکتے تھے۔ خالد شیخ محمد کی قانونی ٹیم نے تصدیق کی کہ انھوں نے اپنے اوپر عائد کردہ تمام الزامات کو قبول کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ خالد شیخ محمد 14 اپریل 1965 کو کویت میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد مقامی مسجد کے پیش امام تھے اور اُن کا تعلق پاکستان سے تھا۔ خالد نے 16 سال کی عمر میں اسلامی تنظیم ’اخوان المسلمون‘ کی رکنیت حاصل کی تھی۔ سنہ 1983 میں سیکنڈری سکول کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے امریکہ چلے گئے جہاں انھوں نے ’نارتھ کیرولائنا ٹیکنیکل یونیورسٹی‘ میں داخلہ لیا اور وہاں میکینیکل انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔ یہاں اُن کی ملاقات عرب طلبا کا ایک گروپ سے ہوئی جو یہاں پہلے سے ہی زیرِ تعلیم تھے۔ اس گروپ کے افراد کی مذہبی معاملات میں دلچسپی کے باعث انھیں یونیورسٹی کے باقی طلبا ’ملاز‘ کہتے تھے۔ دسمبر 1986 میں خالد نے مکینیکل انجینیئرنگ کی ڈگری مکمل کر لی مگر اس دوران وہ شدت پسندی سے متعلقہ معاملات میں کافی آگے جا چکے تھے۔ سنہ 1987 میں خالد شیخ محمد اسامہ بن لادن کے ساتھ ملے اور افغانستان میں سوویت فوجوں کے خلاف ’جنگِ جاجی‘ میں شریک ہوئے۔ نائن الیون حملوں کے سہولت کار اور سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو پر حملہ کرنے والے رمزی یوسف بھی خالد شیخ محمد کے بھتیجے تھے۔ رمزی یوسف نے سنہ 1993 میں ورلڈ ٹریڈ سینٹرز کو تباہ کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ اگرچہ رمزی کا مشن ناکام ہوا، لیکن اس کا شدت پسندوں کی اُس وقت کی اُبھرتی ہوئی نسل پر گہرا اثر پڑا تھا۔ ٹام میک ملن اپنی کتاب ’فلائٹ 93: دی سٹوری آف دی آفٹرمیتھ اینڈ دی لیگیسی آف امریکن کریج آن 9/11‘ میں لکھتے ہیں کہ ’ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر 1993 کے حملے نے انتہا پسندوں کو یہ سمجھنے میں مدد دی تھی کہ امریکی سرزمین پر حملہ کوئی غیرمعمولی بات نہیں تھی۔‘ افغانستان میں تربیتی کیمپ میں اپنے تجربے اور رابطوں کی بدولت رمزی یوسف جعلی پاسپورٹ کے ذریعے امریکہ میں داخل ہونے میں کامیاب ہوئے جس کے بعد انھوں نے اپنے ساتھیوں کی ایک ٹیم بنائی تھی اور بموں سے لدی کرائے کی وین ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے نارتھ ٹاور کے گیراج میں بھجوا دی۔ اس دھماکے میں چھ افراد ہلاک اور کئی سو زخمی ہوئے تھے۔ عمارت کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا یوسف نے سوچا تھا لیکن وہ امریکہ کے سب سے بڑے شہر کی سڑکوں پر دہشت پھیلانے میں کامیاب رہے تھے۔ یہیں سے دنیا میں انتہا پسندی کا ایک نیا دور شروع ہوا تھا اور اس دوران رمزی یوسف امریکہ سے فرار ہو کر پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے تھے۔

Source: Social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments