نئی دہلی: کیا نیپال میں بادشاہت بحال ہونی چاہیے؟ نیپال میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کے بعد سوشل میڈیا پر یہ معاملہ موضوع بحث ہے۔ گرچہ نیپال میں سابقہ بادشاہت کی بحالی کے مطالبے پر ہوئے حالیہ مظاہرے بڑے پیمانے پر نہیں تھے لیکن یہ سوال اٹھنا شروع ہو گیا ہے۔ مظاہرے میں شریک بہت سے لوگوں نے نیپال میں بادشاہت کے دوبارہ قیام کے اپنے مطالبے کا اعادہ کیا ہے۔ مظاہرین نے کھل کر اس خواہش کا اظہار کیا کہ نیپال کو دوبارہ ہندو راشٹر بننا چاہیے۔ واضح رہے کہ نیپال میں 2008 میں بادشاہت کا نظام ختم کر دیا گیا تھا۔ تب سے نیپال میں جمہوریت ہے۔ اس سے پہلے نیپال میں 239 سال تک مسلسل بادشاہت رہی۔ مسئلہ یہ ہے کہ 2008 سے اب تک نیپال میں 11 بار حکومت تبدیل ہو چکی ہے۔ اس سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ در اصل گذشتہ اتوار کو سابق راجہ گیانیندر شاہ نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو کے تریبھون بین الاقوامی ہوائی اڈے پر پہنچے تھے۔ ایئرپورٹ پر ان کے استقبال کے لیے لوگوں کی بھیڑ جمع تھی۔ ہجوم میں بہت سے لوگوں نے یہ نعرہ لگایا – 'نارائن ہیٹی خالی کرو، ہمارے راجا آ رہے ہیں' نارائن ہیٹی 2008 تک نیپال کا شاہی محل ہوا کرتا تھا اور یہاں راجہ قیام کرتے تھے۔ جب سے گیانیندر شاہ کو راجہ کے عہدے سے ہٹایا گیا، وہ عوام میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ نیپال میں اچانک بادشاہت کا مسئلہ کیوں اٹھنے لگا ہے؟ بہت سے سوشل میڈیا صارفین کا ماننا ہے کہ اس کے پیچھے پڑوسی ملک کا ہاتھ ہے۔ نیپال کے سابق راجہ گیانیندر شاہ کے استقبال کے لیے ہجوم کے جمع ہونے اور وہاں لگائے جانے والے نعروں کی وجہ سے یہ مسئلہ سرخیوں میں ہے۔ اسی ہجوم میں ایک شخص اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی بھی تصویر لیے کھڑا دیکھا گیا جس سے اس پورے معاملے کا رخ ہندوستان کی طرف مڑ گیا۔ نیپالی سوشل میڈیا صارفتین اس معاملے میں ہندستان کے کردار پر برملا سوال اٹھا رہے ہیں۔ جیسے ہی یہ تصویر میڈیا میں آئی، نیپال میں ہندستان کے بارے میں بحث چھڑ گئی۔ وہیں اس مظاہرے پر حکومت ہند کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔ جب کہ نیپال کے وزیر اعظم کے پی شرما اولی کی پارٹی نے بھارت کا نام لے کر ایک اہم بیان جاری کیا۔ کے پی شرما اولی کی پارٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ 'یہ 1950 کا دور نہیں ہے، جب بھارت نے ہندستانی سفارت خانے میں پناہ لینے والے تریبھون شاہ کو نیپال کا راجہ بنا دیا تھا،۔ اس لیے گیانندرا شاہ کے حوالے سے اگر کوئی منصوبہ ہے تو اسے چھوڑ دینا ہی بہتر ہوگا۔' اسی بیان میں مزید کہا گیا کہ 'گیانیندر شاہ کو مہاکمبھ میلے میں بھی مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ ایسے میں وہ خود کو ہندو ہردیے سمراٹ کیسے کہہ سکتے ہیں اور یوگی نے بھی انہیں مدعو نہیں کیا۔' وہیں راشٹریہ پرجاتنتر پارٹی کھل کر سابق راجہ گیانیندر شاہ کی حمایت کرتی نظر آئی۔ پارٹی کے لیڈر رویندر مشرا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہجوم میں کھڑے ایک شخص نے یوگی آدتیہ ناتھ کی تصویر پکڑی ہوئی تھی، اس وقت وہ اسے قابو نہیں کر سکتے تھے۔ جب ایک بڑا ہجوم اکٹھا ہوتا ہے، تو کسی کا اختیار نہیں ہوتا کہ کون کیا کرے گا۔ مشرا نے مزید کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ حکومت ناکام ہو رہی ہے، وہ عوام کے لیے کام نہیں کر رہی ہے اور وہ ہمارے احتجاج سے ڈرتی ہے۔ مشرا نے کہا کہ جب بھی نیپال کی کمیونسٹ پارٹیاں اقتدار میں ہوتی ہیں وہ ہندوستان کی حمایت میں بیانات دیتی ہیں لیکن جب وہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں تو ہندستان کی مخالفت شروع کردیتی ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیپال کے راجہ مہندرا 1964 میں آر ایس ایس ہیڈکوارٹر ناگپور آئے تھے۔ انہوں نے وہاں ایک ریلی سے خطاب کیا۔ جب کہ اس وقت دہلی میں کانگریس کی حکومت تھی اور گرو گولوالکر آر ایس ایس کے سربراہ تھے۔ کہا جاتا ہے کہ کانگریس حکومت نہیں چاہتی تھی کہ راجہ مہندر وہاں جائیں۔ راجہ مہندر تربھون کے بیٹے تھے۔ انہوں نے 1955 سے 1972 تک ملک پر حکومت کی۔ اس کے بعد راجہ بیریندر تخت نشین ہوئے۔ بیریندر کے بعد گیانیندر 2001 میں راجہ بنے۔ کہا جاتا ہے کہ شاہی خاندان میں باہمی تعلقات ٹھیک نہیں تھے۔ یکم جولائی 2001 کو بکرم سنگھ اور اس کے پورے خاندان کو قتل کر دیا گیا۔ گیانیندر شاہ 2006 تک راجہ رہے۔ اس کے بعد ملک گیر احتجاج کے باعث انہیں عہدہ چھوڑنا پڑا۔ نیپال میں پہلی بار 2006 میں کثیر الجماعتی حکومت قائم ہوئی۔ ماؤ نوازوں کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ بادشاہت کے دور میں ہندو دھرم نیپال کا سرکاری مذہب تھا اور راجہ کے لیے کسی ہندو عورت کے بطن سے پیدا ہونا ضروری تھا۔
Source: social media
جنگ بندی کی تجویز کا جواب نہ دینے کا مطلب روس جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے: یوکرینی صدر
میں سادہ لوح تھی جو اپنے شوہر کو محفوظ سمجھ بیٹھی: کولمبیا کے گرفتار طالبِ علم کی اہلیہ
ایلون مسک کی بیٹی نے ارب پتی والد پر کیا الزامات عائد کیے ہیں ؟
ٹرمپ نے امریکی سی آئی اے کو بھی خطرے میں ڈال دیا
ایران : پولینڈ کے سفیر کی نامناسب تبصرے پر وزارت خارجہ میں طلبی
سات اکتوبر کی تباہی کا علم ہوتا تو اس کی مخالفت کرتا: ابو مرزوق کا اعتراف
غزہ سے متعلق ٹرمپ کے نئے موقف پر مصر کی جانب سے پہلا تبصرہ
غزہ والوں کی نقلِ مکانی کی تجویز سے ٹرمپ کی واضح دستبرداری: حماس کی جانب سے خیرمقدم
روسی صدر ولادمیر پیوٹن متنازعہ علاقہ کرسک پہنچ گئے
ایٹمی ہتھیار بنانا چاہیں تو امریکا ہمیں روک نہیں سکے گا، ایرانی سپریم لیڈر