حماس کے پولیٹیکل بیورو کے سربراہ اسماعیل ھنیہ کا قتل ایران میں سلامتی کی صورتحال کی واضح خلاف ورزی ہے۔ یہ اس لیے بھی ھنیہ ایران کے سرکاری دورے پر نو منتخب صدر مسعود پزشکیان کی حلف برادری میں شرکت کے لیے تہران آئے تھے۔ ھنیہ بدھ کی صبح ایک گائیڈڈ میزائل حملے میں مارے گئے تھے۔ میزائل سے تہران میں ان کی رہائش گاہ کو نشانہ بنایا گیا جہاں وہ نئے ایرانی صدر کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے تشریف لائے تھے۔ مصری اسٹریٹجک اور عسکری امور کے ماہر احمد ثروت نے ’العربیہ ڈاٹ نیٹ‘ کو وضاحت کی کہ ھنیہ کو تہران میں اسرائیلی میزائل کے ذریعے مارا گیا۔ اسرائیلی ریڈیو کے اعلان کے مطابق ایران کے دفاعی صلاحیتوں میں سنگین نوعیت کے سقم ہیں جن کے نتیجے میں ان کے لیے میزائل کو روکنا ممکن نہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ "تہران کی اپنے ریڈارز اور دفاعی نظام میں کمزوری کو ظاہر کرتا ہے، جس نے میزائل کے گذرنے،اس کے لانچ، اس کے راستے یا اس کے لانچ کے مقام کا پتہ نہیں لگایا"۔ مصری ماہر نے کہا کہ ہنیہ کے ساتھ اور تہران کے قلب میں جو کچھ ہوا اس سے پاسداران انقلاب کے رہ نماؤں کے لیے بھی اسی طرح کے خطرے کی نشاندہی ہوتی ہے جنہیں اسی طرح اور ان کی جگہوں پر شکار کیا جا سکتا ہے اور آسانی سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "جب تک صورتحال ایسی ہے اور وہاں واضح سکیورٹی کوتاہیاں موجود ہیں۔ اسرائیلی تہران کے اندر پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کو نشانہ بنا سکتا ہے جنہیں وہ تل ابیب کا دشمن خیال کرتا ہے۔ مصری تجزیہ نگار نے ہنیہ کے واقعے کے بعد ایرانی ردعمل پر سوال اٹھاتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ تہران نے ابھی تک قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ نہیں لیا، نہ ہی پاسداران انقلاب کے رہ نماؤں اور جوہری بم بنانے والے اور چیف جوہری سائنسدان محسن فخر زادہ کا بدلہ نہیں لے سکا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہنیہ کو اس کے بیڈ روم میں قتل کیا گیا تھا جس کا مطلب ہے کہ اس کا مقام واضح طور پر معلوم تھا اور ان لوگوں کے لیے درست نقاط کے ساتھ جنہوں نے اسے قتل کیا۔ اسے براہ راست نشانہ بنایا جس میں اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔ یہ ایران کی انٹیلی جنس ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "اگرہم ماضی میں جائیں تو ہم دیکھیں گے کہ اسرائیل حماس کے رہ نماؤں کو کئی سالوں سے نشانہ بنا رہا ہے۔ اس نے تحریک کے بانی شیخ احمد یاسین کو قتل کیا۔ ان کے بعد، حماس کے لیڈر عبدالعزیز الرنتیسی کو مارا گیا۔ اس لیے ایرن ھنیہ کے لیے زیادہ تحفظ فراہم کرنا تھا، جو تہران میں تقریب میں شرکت کے لیے موجود تھے‘‘۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تقریب کے مہمانوں کی حفاظت ایرانی ریاست کے لیے ایک لازمی سفارتی فریضہ ہے، اسی لیے اسے تہران کے لیے ایک اسٹریٹجک معاملہ ہونا چاہیے تھا اور پاسداران انقلاب کے لیے اس کی اہمیت کی وجہ سے اسے اولین ترجیح اور مکمل متحرک ہونا چاہیے۔ مصری ماہرنے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ حماس اور ایران دونوں کے ساتھ ساتھ ایران نواز دیگر گروپوں کے لیے بھی ایک پیغام ہے۔ یہ پیغام کے کہ چاہے کوئی بھی اور کہیں بھی ہو وہ اسرائیل کی پہنچ سے دور نہیں چاہے کوئی ایران ہی میں کیوں نہ ہو۔
Source: Social Media
جنگ بندی کی تجویز کا جواب نہ دینے کا مطلب روس جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے: یوکرینی صدر
میں سادہ لوح تھی جو اپنے شوہر کو محفوظ سمجھ بیٹھی: کولمبیا کے گرفتار طالبِ علم کی اہلیہ
ایلون مسک کی بیٹی نے ارب پتی والد پر کیا الزامات عائد کیے ہیں ؟
ٹرمپ نے امریکی سی آئی اے کو بھی خطرے میں ڈال دیا
ایران : پولینڈ کے سفیر کی نامناسب تبصرے پر وزارت خارجہ میں طلبی
سات اکتوبر کی تباہی کا علم ہوتا تو اس کی مخالفت کرتا: ابو مرزوق کا اعتراف
غزہ سے متعلق ٹرمپ کے نئے موقف پر مصر کی جانب سے پہلا تبصرہ
غزہ والوں کی نقلِ مکانی کی تجویز سے ٹرمپ کی واضح دستبرداری: حماس کی جانب سے خیرمقدم
روسی صدر ولادمیر پیوٹن متنازعہ علاقہ کرسک پہنچ گئے
ایٹمی ہتھیار بنانا چاہیں تو امریکا ہمیں روک نہیں سکے گا، ایرانی سپریم لیڈر