National

بی جے پی ایم ایل اے نے کی مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش، جج نے خود کو معاملے کی سماعت سے کیا الگ

بی جے پی ایم ایل اے نے کی مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش، جج نے خود کو معاملے کی سماعت سے کیا الگ

مدھیہ پردیش کی سیاست میں اس وقت بھونچال آ گیا جب ہائی کورٹ کے ایک جج نے حکم نامے میں انکشاف کیا کہ بی جے پی کے ایم ایل اے سنجے پاٹھک نے عدالت کو متاثر کرنے کی کوشش کی۔ جسٹس وِشال مشرا نے یکم ستمبر کو جاری کردہ اپنے حکم میں صاف طور پر لکھا کہ ’’سنجے پاٹھک نے مجھ سے ایک مخصوص معاملے (پاٹھک خاندان کی کان کنی کمپنیوں سے متعلق) پر بات کرنے کی کوشش کی، لہٰذا میں اس درخواست پر سماعت نہیں کروں گا۔‘‘ یہ بیان عدالت میں موجود وکلاء اور دیگر افراد کو حیرت میں ڈال گیا، کیوں کہ کسی موجودہ جج کی جانب سے کسی حکمراں جماعت کے رکن اسمبلی پر براہ راست دباؤ ڈالنے کا یہ پہلا کھلا اعتراف ہے۔ یہ کیس کٹنی کے رہائشی اشوتوش منو دکشت نے جون 2025 میں دائر کیا تھا، جس میں انھوں نے پاٹھک خاندان سے منسلک کمپنیوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقتصادی جرائم وِنگ (EOW) کو بارہا شکایات دینے کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ تاہم عرضی دائر ہونے کے کچھ ہی دن بعد مدھیہ پردیش کے معدنی وسائل کے محکمہ نے پاٹھک خاندان سے منسلک تین کمپنیوں—آنند مائننگ کارپوریشن، نرملا منرلز اور پیسفک ایکسپورٹس—پر 443 کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا۔ سیٹلائٹ تصاویر اور انڈین بیورو آف مائننگ کے ڈیٹا پر مبنی تحقیق سے جبل پور میں وسیع پیمانے پر غیر قانونی کانکنی ثابت ہوئی۔ یہی نہیں 6 اگست کو اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیراعلیٰ ڈاکٹر موہن یادو نے تحریری جواب میں تسلیم کیا کہ متعلقہ کمپنیوں نے منظور شدہ حد سے زیادہ کان کنی کی ہے اور اب تک حکومت کے پاس تقریباً 1000 کروڑ روپے جمع نہیں کرائے گئے۔ پاٹھک پر ایک اور سنگین الزام بھی ہے۔ واضح رہے کہ سنجے پاٹھک، جو پہلے کانگریس میں تھے، وہ 2013 میں شکست کے بعد بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ انھوں نے اپنے خاندان کی 70 سالہ کان کنی کی تاریخ کا حوالہ دے کر الزامات کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں، تاہم حکومت اپنے سیٹلائٹ شواہد پر مبنی تحقیقات پر قائم ہے۔

Source: Social media

Post
Send
Kolkata Sports Entertainment

Please vote this article

0 Responses
Best Rating Best
Good Rating Good
Okay Rating Okay
Bad Rating Bad

Related Articles

Post your comment

0 Comments

No comments